گزشتہ اتوار کو سنیٹر اعتزاز احسن آکسفورڈ یونین کی تقریب میں مرکزی مقرر تھے۔ وہ پاکستان کے مستقبل کے لیڈروں سے متعلق کانفرنس میں آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی کے مہمان تھے۔ یہ اس قسم کی کانفرنس کا چوتھا سال تھا جس کا آغاز 2010ءمیں کیا گیا۔ ایک روز قبل عمران خان نے یہاں تقریر کی جبکہ گزشتہ برسوں شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر بھی یہاں خطاب کرچکی ہیں۔ بحث مباحثہ کیلئے یہ مقام نہ صرف یونیورسٹی یا برطانیہ بلکہ پوری دنیا کیلئے اہم حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران دنیا میں تاریخ، سیاست اور فنون میں تاریخ ساز عالمی شخصیات یہاں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرچکی ہیں اور اس فہرست میں صرف وہی شخصیات شامل نہیں جو سیاسی اتھارٹی یا امپیریل پاور کی حامل تھیں بلکہ وہ بھی تھیں جنہوں نے انکو چیلنج کیا۔ اس طرح گزشتہ چند سال میں اگر امریکہ اور اتحادیوں کی طرف سے عراق میں وحشیانہ کامیابی کے حصول کے بعد وہاں مقرر کئے جانیوالے ان اتحادیوں کے نمائندہ حکمران پال بریمر نے خطاب کیا تو انکے شدید مخالف جولین اسانج نے بھی اسی مقام پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جہاں تک اعتزاز احسن کا تعلق ہے انہوں نے سوال جواب کی نشست کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں پیپلز پارٹی سے نکالا جاسکتا ہے مگر پیپلز پارٹی ان سے نہیں نکالی جاسکتی۔ انہوں نے کہا آج پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے مگر جمہوریت کا تسلسل ایک بڑا مثبت پہلو ہے۔ یہ بالکل ایک دریا کے بہاﺅ کی مانند ہے جو برقرار رہے تو سیاست کے گند کو بہا لے جاتا ہے۔ اگرچہ وہاں موجود بیشتر طلبہ اور پیشہ ور شخصیات اس بات سے متفق تھیں کہ پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے جمہوریت ہی واحد راستہ ہے تاہم اعتزاز احسن انہیں پیپلز پارٹی کے اتحاد کی پانچ سال کے غلط کاموں کی علامت کے طور پر دکھائی دئیے۔ البتہ یہ بات نامناسب تھی کیونکہ کسی آئینی ماہر کا گزشتہ برسوں کی مس گورننس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا تاہم اعتزاز احسن کی طرف سے زرداری کی طرفداری کرنے سے انکے ساتھ حاضرین کی ہمدردی اور اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اس موقع پر اجتماع میں موجود لوگوں کے انداز میں تندی واضح طور پر دکھائی دی۔ انکے خطاب کے بعد طلبہ نے اگر مختلف الفاظ میں اس پر تبصرے کئے مگر انکے احساسات میں مکمل یکسانیت تھی۔ اعتزاز کیلئے یہ وضاحت کافی تکلیف دہ محسوس ہوئی کہ وہ شروع سے پیپلز پارٹی میں شامل ہیں۔ انہوں نے اس جملے کا پھر اعادہ کیا کہ انہیں پیپلز پارٹی سے نکالا جاسکتا ہے پیپلز پارٹی انکے اندر سے نہیں نکالی جاسکتی۔ اس پر ایک طالبہ ماریہ خالد نے ان سے سوال کیا کہ آخر وہ ملک سے وفاداری کو پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری پر ترجیح کیوں نہیں دیتے؟ جس پر ٹھنڈے دل و دماغ کے حامل اعتزاز احسن بھڑک اٹھے اور کہا کہ انکی پارٹی کیخلاف ان خطوط پر سوچنا غلط ہے۔اس کے باوجود دوسروں نے سپریم کورٹ کے حوالے سے اس کے خوب لتے لئے جیسے عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان جو کچھ کر رہے ہیں یا ریمارکس دے رہے تھے، اس سب کیلئے وہی ذمہ دار تھے۔ مانچسٹر کے بیرسٹر امجد ملک نے اعتزاز احسن کو یاد دلایا کہ برٹش، پاکستانی لائیرز ایسوسی ایشن کے نمائندے کی حیثیت سے 2007ءمیں میں نے بھی دوسروں کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کیلئے رٹ دائر کی تھی جس کی دوسری درخواستوں کے ساتھ سماعت ہوئی تھی۔ اس کی دلیل تھی کہ اس وقت اگر مفاد عامہ کے حق میں چیف جسٹس کیلئے آواز پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا تو اب ڈاکٹر طاہر القادری کی دہری شہریت کے حوالے سے کیوں سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اعتزار احسن نے فی الفور اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی دہری شہریت کی بنیاد پر انکی درخواست کو مسترد کرنا مناسب نہ تھا باوجودیکہ الیکشن کمیشن کےخلاف اس درخواست کو مسترد کرنے کی دوسری اور کئی وجوہات بہرحال موجود تھیں۔ زیادہ مناسب ہوتا اگر طلباءاور دوسرے پروفیشنل افراد اعتزاز احسن سے آئینی اور قانونی امور سے متعلق سوالات کرتے یا ان امور کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے جن سے اعتزار احسن براہ راست متعلق رہے تھے لیکن پی ایف ایل سی کی سات مختلف کمیٹیاں ہیں جو پاکستان کو تعلیم، خارجی داخلی امور، صحت، آئینی معاملات، معاشیات اور ماحولیاتی صورتحال کے حوالے سے کام کر رہی تھیں اور ان کمیٹیوں کے چیئر مین اور کو چیئر مین اس مباحثے کا حصہ تھے، اس لئے وہ اعتزاز احسن کے ساتھ ان تمام معاملات اور مسائل کے حوالے سے بحث کرکے انکی رائے جاننا چاہتے تھے چنانچہ خیال خاطر احباب کی خاطر ان کو ان مختلف النوع مسائل پر لب کشائی کرنا پڑی اور بلوچستان کی کشیدہ صورتحال سے لےکر سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس پر سوال جواب ہوئے۔ معروف قانون دان نے مختلف مسائل کے حوالے سے جو طرز استدلال اختیار کیا اور تجزیہ پیش کیا وہ طالب علموں کو کماحقہ متاثر نہ کر سکا اور ایک نے سوال بھی داغ دیا کہ اگر آپ کی حکومت مسائل حل نہیں کر سکتی تو آپ حکومت چھوڑ کر دوسروں کو موقع کیوں نہیں دیتے کہ وہ آکر ہمارے مسائل حل کریں۔ پی ایف ایل سی کمیٹیوں کی طرف سے کئی دلچسپ تجاویز بھی سامنے آئیں۔ جیسے ہیلتھ کمیشن کے ریزولیوشن میں نہ صرف ہیلتھ بجٹ میں اضافہ تجویز کیا گیا بلکہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت اپنی ویب سائٹ پر اس سے متعلق معیاری معلومات بھی فراہم کرکے اور ہیلتھ سیکٹر میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے خواہشمند افراد کیلئے مناسب قانون سازی بھی ہونی چاہئے۔میں یہ بات تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اعتزاز احسن نے تو ان پاکستانی طالب علموں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کئے جن سے انکی ملاقات پاکستان کے مستقبل کے لیڈر کانفرنس 2013ءمیں ہوئی تاہم میں یہ تاثر ضرور لیکر وطن لوٹا ہوں کہ اگر ان طلبہ کے جذبات اور احساسات ان برادریوں کے بھی ہیں جن سے ان کا پاکستان میں تعلق ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کو آنےوالے انتخابات میں بالخصوص شمالی پنجاب، خیبر پی کے اور کراچی میں کئی نامساعد اور ناخوشگوار حالات کا سامنا ہوگا کہ برطانیہ میں زیرتعلیم طالبعلموں کا تعلق زیادہ تر انہی علاقوں سے ہے اور ان میں سے اکثر کی باتیں انکے عزیز و اقارب کے دل کی آواز ہی سمجھی جانی چاہئے۔