پاکستان الیکشن کمیشن نے واضح طور پر باور کرایا ہے کہ دہری شہریت والا کوئی شخص پارٹی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ پولیٹیکل آرڈر 2002ء کے تحت پارٹی عہدے کیلئے بھی ممبر پارلیمنٹ والی شرائط لاگو ہوتی ہیں۔ گذشتہ روز الیکشن کمیشن کے روبرو انجینئر جلیل ملک نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ انتخابی اصلاحات کیلئے طے پانے والے حکومتی معاہدے کو چیلنج کیا اور موقف اختیار کیا کہ اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ یہ معاہدہ ایک غیر ملکی کے ساتھ کیا گیا ہے جو اپنی دہری شہریت کے باعث انتخابات میں حصہ لینے کے بھی اہل نہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں واضح کیا کہ دہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص پارٹی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا۔دہری شہریت کے حامل افراد کیلئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی پابندی تو پہلے ہی آئین کی دفعہ سی 63(1) میں طے شدہ ہے اور یہ آئینی شق آئین میں شروع دن سے موجود ہے جس کی بنیاد پر دہری شہریت رکھنے والے کسی بھی شخص کو سنیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے انتخابات لڑنے کا نااہل قرار دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ کسی بھی انتخاب میں امیدواروں کی سکروٹنی کے وقت اس آئینی شق کو بروئے کار نہیں لایا گیا چنانچہ 1973ءسے 2008ءتک کے عرصہ کے دوران منعقد ہونیوالے تمام انتخابات میں دہری شخصیت کے حامل افراد منتخب ہو کر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں آتے رہے ہیں جنہوں نے واضح آئینی پابندی کے باوجود انتخابات میں حصہ لینا اپنا استحقاق سمجھ لیا تھا۔ اس آئینی شق پر عملدرآمد میں نرمی کے باعث انتخابی عمل میں دھن، دونس اور دھاندلی کے کلچر کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اب اس فیصلے سے سے قوم میں موروثی سیاست اور کرپشن کلچر کے پروردہ روائتی سیاستدانوں سے خلاصی حاصل کرنے کیلئے سسٹم کی تبدیلی کی سوچ پیدا ہوئی ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے۔