اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت نیوز+ ثناءنیوز) چیئرمین نیئر حسین بخاری کی زیرصدارت سینٹ کا اجلاس ہوا۔ سینٹ میں قائداعظم میڈیکل یونیورسٹی کو شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے نام سے منسوب کرنے کا بل پیش کیا گیا۔ بل پیش کرنے پر اپوزیشن اور چودھری شجاعت نے احتجاج کیا۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ےہ غیرمناسب ہے کہ یونیورسٹی سے قائداعظمؒ کا نام ہٹایا جائے۔ یونیورسٹی کے نام اور بل کے مسودے پر بھی اعتراض ہے۔ تعلیم اب صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ یونیورسٹی سے قائداعظمؒ کا نام نہ ہٹایا جائے۔ نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کیلئے بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا جس کے تحت قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوںکو ایک سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔ چیئرمین نیئر حسین بخاری نے شہید ذوالفقارعلی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (پمز) کے قیام کا بل متفقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے۔ ایوان میں سینیٹر اسلام الدین شیخ نے ایوان کی مجالس قائمہ میں اضافہ کیلئے ضابطہ کار میں ترمیم پیش کی۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اسحاق ڈار ، سینیٹر بابر اعوان ، سینیٹر کلثوم پروین نے مخالفت کی۔ ترمیم کو کثرت رائے کی بنیاد پر منظورکرلیا گیا۔ ایوان میں وزیر کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ نذر محمد گوندل نے پمز میں متذکرہ میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کا بل پیش کیا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما سینیٹر ظفر علی شاہ اور اپوزیشن کے دیگر ارکان نے مخالفت کی اور کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم سے منسوب قائد اعظم میڈیکل فیکلٹی کو بند کرکے بھٹو کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے۔ ظفر علی شاہ نے کہا کہ حکومت نے ملک کی ہر شاہراہ ، عمارت ، علاقے اور شہر کے ناموں کو تبدیل کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ وفاقی وزیر نذر محمد گوندل نے کہاکہ کسی میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرکے شہید ذوالفقارعلی بھٹو نہیں رکھا جا رہا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کشن گنگا ڈیم پرعالمی ثالثی عدالت کے عبوری فیصلے کی کاپی ایوان بالا میں پیش کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے عالمی ثالثی عدالت میں مقدمہ ہار گیا ہے۔ ثالثی عدالت نے دونوں ملکوں سے تفصیلات مانگی ہے۔ دسمبر 2013ءمیں حتمی فیصلہ آ جائیگا۔ قائد حزب اختلاف اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے اس معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔ بھارت کئی ڈیموں کے حوالے سے سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی معاملہ کو پاکستان میں متنازعہ بنا دیا گیا، ملک کے ہر تھانے میں وفاقی وزیر داخلہ کا نام درج ہے۔ پاکستان کو ناکام بنانے کی کوششیں کرنے والی قوتوں نے کالا باغ ڈیم کو متنازع بنایا۔ پارلیمنٹ کی کسی کو پروا نہیں ہے ۔ محسن لغاری نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے تعینات ماہرین کی ٹیم کی اہلیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بھارت جہلم اور چناب پر 40ڈیم بنا چکا ہے ۔ 4 بڑے اور 16ڈیم ایڈیشنل ہیں ، 45پر مزید کام کررہا ہے ۔ سندھ کے قریب بھی بھارت ڈیم تعمیر کررہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم سے حقائق چھپائے جا رہے ہیں۔ وزیر مملکت پانی و بجلی تسنیم قریشی نے جواب دیا کہ کشن گنگا ڈیم پر فیصلہ ہماری ناکامی نہیں۔ ارکان سینٹ نے امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے حکومت سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ سینٹ اجلاس کے دوران عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی سینٹ گیلری میں آئیں تو وزیر داخلہ رحمن ملک کی موجودگی میں حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان سینٹ نے امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھانے پر احتجاج کیا اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہاکہ حکومت غافل نہیں ہے، میں نے اس حوالے سے سابق امریکی صدر جارج بش، موجودہ صدر بارک اوباما اور ہلیری کلنٹن کے سامنے معاملہ اٹھایا تھا۔ امریکی صدر جب دوسری مرتبہ منتخب ہوتا ہے تو رحم کی اپیل پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ امریکہ کو ایک خط لکھا ہے ہم ویسا ہی کریں گے جیسا فوزیہ چاہے گی۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا ہے عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے جو امریکہ کے ظلم و ستم کا شکار ہے، آٹھ ماہ سے امریکی اٹارنی جنرل رمزی کلارک کا خط حکومت کے پاس ہے۔ آٹھ ماہ سے حکومت نے اس خط کی کمیٹی ڈالی ہوئی ہے۔ رحمن ملک سے کہتا ہوں عافیہ کو رہا کروا کر دعائیں لیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہاکہ عافیہ صدیقی کی واپسی کی بات ضرور ہونی چاہئے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ سینٹ نے قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے قواعد میں ترمیم منظور کرلی۔ مسلم لیگ (ن) نے مخالفت کی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی ایوان سے واک آﺅٹ کر گئی، قواعد میں ترمیم کے حوالے سے تحریک اسلام الدین شیخ نے پیش کی جس پر ایوان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ خود تحریک پیش کرتے ہیں اور خود ہی ترمیم کرتے ہیں، معاملے کو موخر کیا جائے۔ حاجی عدیل نے ایوان میں ووٹنگ کا مطالبہ کیا جسے روندتے ہوئے قواعد و ضوابط میں ترمیم کو منظور کر لیا گیا جس کے بعد اے این پی کے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔ نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن انضباط و انصرام کیلئے ترمیمی بل 2013ءکی ایوان نے اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔