فرخ سہیل گوئندی ایک پبلشر نہیں بلکہ دانشور ہے۔ اس لئے اشاعت سے پہلے کتابوں کا انتخاب کرنے کیلئے اُس کے پیش نظر تاجرانہ سوچ نہیں ہوتی بلکہ وہ اعلیٰ نصب العین کو سامنے رکھ کر کسی بھی کتاب کو شائع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ شاعر، کالم نگار، وکیل اور محقق ظفر علی راجہ کی کتاب ’’قانون دان اقبال‘‘ شائع کر کے بھی فرخ سہیل گوئندی نے میرے اس خیال کی تائید کی ہے کہ ایک شاعر کی بھی پروازِ تخیل ہوتی ہے، ایک دانشور بھی سوچتا ہے اور ایک تاجر بھی، لیکن سب کی سوچ کا معیار الگ الگ ہے۔ یہی خوبی فرخ کو دوسرے ناشروں سے ممتاز کرتی ہے۔
ظفر علی راجا ایڈووکیٹ نے ’’قانون دان اقبال‘‘ کتاب کے آغاز میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا ایک حوالہ دیتے ہوئے اقبال کی شخصیت کو ایک جلوۂ ہزار رنگ کا مرقع قرار دیا ہے۔ اقبال کی ہزار رنگ شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ایک کامیاب وکیل تھے۔ نابغۂ روزگار اقبال کی شاعری اور اُن کی فکری خدمات کے حوالے سے تو سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں مگر جس پیشۂ وکالت سے پوری زندگی اقبال کی روزی اور رزق وابستہ رہا اُس حوالے سے ظفر علی راجا کی تحقیق سے پہلے باقاعدہ طور پر ایک بھی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ حیاتِ اقبال کا یہ اہم ترین لیکن چھپا ہُوا گوشہ پہلی بار ایک جامع کتاب کی صورت میں سامنے لایا گیا ہے اور اس کتاب کا نام ’’قانون دان اقبال‘‘ ہے۔
بعض لوگوں نے ظفر علی راجا کو اس عزم و ارادہ سے باز رکھنے کی بھی کوشش کی کہ وہ ’’قانون دان اقبال‘‘ لکھ کر اقبال کی عظمت میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے بلکہ اس سے اقبال کی شخصیت مجروح ہو گی۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ اقبال کبھی بھی نامور وکیل نہیں رہے کیونکہ اقبال کی زندگی شاعری اور فلسفیانہ موضوعات کیلئے وقف تھی اس لئے اُن کی برائے نام سی وکالت پر کتاب لکھنا بے سود ہو گا۔ ایک متعصب ہندو چیف جسٹس سر شادی لال کے اس بدنام زمانہ تبصرے نے بھی اقبال کی وکالت کے حوالے سے گمراہ کن تاثر پھیلانے میں خاصا کردار ادا کیا تھا۔ جسٹس شادی لال نے کہا تھا کہ ’’میں اقبال نامی شاعر کو تو جانتا ہوں لیکن اس نام کے وکیل سے واقف نہیں ہوں۔‘‘
ظفر علی راجا نے اقبال کی وکالت کے حوالے سے ان تمام منفی تاثرات کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ہر حال میں ’’قانون دان اقبال‘‘ پر اپنی تحقیق مکمل کر کے رہیں گے اور اب یہ کتاب پڑھ کر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کی رائے غلط فہمی، لاعلمی اور سراسر جہالت پر مبنی تھی کہ اقبال کو ایک برائے نام وکالت کا الزام دیتے تھے۔ 1908ء سے لیکر 1934ء تک کے دور میں جو اہم قانونی رسائل چھپتے تھے ان میں آل انڈیا رپورٹر، پنجاب لاء رپورٹر، انڈین کیسز نامی رسائل نمایاں ترین تھے۔ ان قانونی رسائل میں اعلیٰ عدلیہ کے ایسے فیصلے شائع کئے جاتے تھے جن میں جج صاحبان نے اہم قانونی اصولوں پر اپنی رائے اور فیصلہ صادر کیا ہوتا ہے۔ ایسے اہم عدالتی فیصلوں میں اقبال کے سو سے زیادہ مقدمات کے حوالے ظفر علی راجا نے تلاش کر کے اپنی تالیف ’’قانون دان اقبال‘‘ میں شائع کر دئیے ہیں۔ جن فوجداری اور دیوانی مقدمات کی اقبال نے بطور ایڈووکیٹ پیروی کی ان میں پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ اقبال کے حق میں ہُوا جس سے ان کی قانون پر اعلیٰ مہارت ثابت ہو جاتی ہے۔ پھر اقبال صرف عدالتوں میں پیش ہونے والے وکیل نہیں تھے وہ اپنی مسلمان قوم کے وکیل بھی تھے۔ ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل انہوں نے تصورِ پاکستان کے طور پر جو پیش کیا تھا وہ بھی ان کے قانون دان دماغ کا مرہون منت تھا۔ اسلامی آئین اور قانون کے حوالے سے اقبال کی بصیرت افروز تحریریں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسلامی نظام حکومت کے حوالے سے اقبال کے خیالات بھی اُن کے اعلیٰ پایہ کی قانون فہمی کا اظہار ہے۔ دین و سیاست میں تفریق کے اقبال سخت مخالف تھے کیونکہ اسلامی آئین زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا کہ ’’نبوت محمدیہؐ‘‘ کی غایت الغایت یہ ہے کہ ایک ’’ہیت اجتماعیہ انسانیہ‘‘ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی سے ملا ہے۔‘‘
’’قانون دان اقبال‘‘ کے آخری باب میں اقبال کے قانونی اقوال شائع کئے گئے ہیں جن میں اقبال کا پہلا ارشاد یہ ہے کہ وکالت اللہ پر توکل رکھنے والوں کا پیشہ ہے۔ اگر ہم اقبال کے اسی قول کو اپنا رہنما بنا لیں تو اللہ پر توکل ہمیں زندگی کی ہر غلط روش پر چلنے سے روک سکتی ہے۔ قانون دان اقبال ایسے اسلامی اور فلاحی معاشرے کے داعی تھے جو تمام انسانوں کیلئے حریت اور مساوات کا پیغام اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔
علامہ اقبال چونکہ عاشقِ رسولؐ تھے اور محبتِ رسولؐ کے بغیر وہ مسلمانی کے دعوے کو بے بنیاد سمجھتے تھے۔ اس لئے توہین رسالتؐ کے مجرم کیلئے وہ احادیث اور سُنت رسولؐ کے مطابق موت کی سزا مقرر کرنے کے داعی تھے۔ اقبال کا مؤقف یہ تھا کہ اگر توہین رسالتؐ کے مجرموں کی صحیح سزا قانونِ ہند میں موجود ہوتی تو غازی علم الدین کو شاتمِ رسول راجپال کو قتل کرنے کیلئے قانون اپنے ہاتھ میں نہ لینا پڑتا۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ گستاخِ رسول مسیلمہ کذاب کو اسی بنیاد پر قتل کیا تھا کہ اُس نے ختم نبوت کے عقیدہ سے بغاوت کر کے جھوٹا دعویٰ نبوت کر دیا تھا اور اس طرح توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ ظفر علی راجا کے مطابق توہینِ رسالت کی سزا کے حوالے سے قرآن و سُنت کی روشنی میں ہماری اعلیٰ عدالتوں نے جو فیصلہ 1991ء میں صادر کیا تھا وہ اقبال کے وژن اور قانون فہمی پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔