ہفتہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ 23مارچ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں موجود
حمید نظامی نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ حمایت اسلام اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی پْرفضا تعلیمی ماحول کے ادارہ میں 1932ء میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اس ادارے کی تربیت و تعلیم کی بدولت ان میں قوت گویائی، ملت سے ہمدردی اور کھل کر بات کہنے، لکھنے کی قواعد حاصل ہوئے۔ اس طرح 1937ء میں اسلامیہ کالج سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ بعد پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان کی علمی فوقیت اور مثبت سوچ کے اعتبار سے بڑے متحرک طالب علم حمید نظامی کو فیڈریشن کا پہلا صدر منتخب کرلیا۔ حمید نظامی اپنے اسلوب بیان اور مسلم لیگ سے گہری وابستگی کی بدولت بطور صدر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن لکھنئو میں مدعو کئے گئے اور شرکت کی اور علامہ محمد اقبالؒ کے دولت کدہ سے خودی کے اسلوب پائے۔ حمید نظامی نے اپنی ڈگری کو مزید فوقیت دینے کی خاطر ایف سی کالج لاہور سے 1940ء میں ایم اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ ذریعہ معاش کے لئے اپنے زور بازو اور ذوق قلم کو آزمانے کی خاطر صحافت کا دامن تھامنے کا فیصلہ کیا۔ ان خصائص کے ساتھ ساتھ وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے خاص معتمد ہوتے گئے۔ قائداعظمؒ بھی حمید نظامی سے اْلفت کرتے تھے۔
یاد رہے اس زمانے میں صحافت آسان نہ تھی۔ بڑی اْلجھنیں تھیں۔ انسان کے اعصاب پر بڑے اثرات آتے تھے۔ نوائے وقت تو ہفتہ وار تھا۔ اس کی لکھائی کے لئے کاتب، اْن کے قلم سیاہی دوات روزگار اور پرنٹنگ کا بندوبست کرنا بڑا مشکل تھا اور اخبار کا بیچنا مشکل کام تھا۔ اشتہار اس زمانے میں نہیں ہوتے تھے۔ اخبار میں کہانیاں، خطوط ہوتے تھے۔ تصویریں کم تھیں بلکہ ناپید تھیں۔ شروع ہی سے نوائے وقت میں جھوٹ نہ تھا، سچائی تھی، سچائی کو مشکلات آتی ہیں۔ بعد میں ہفتہ وار ہوا اور روزنامہ اس وقت ہوا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس زمانے میں روزنامہ اخبار احسان، زمیندار لاہور سے نکلتے تھے اور شہباز پشاور سے نکلتا تھا۔ اخبارات کو شعراء کی شاعری میسر تھی۔ مسلمان تاجر کم تھے۔ ہندو سکھ تاجر تھے۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتہار بھارت کے اخبار ویر بھارت، پرتاپ، ملاپ وغیرہ کو جاتے تھے۔ اس کام کو کرنے کے لئے حمید نظامی نے ایک چھوٹا سا گھر بیڈن روڈ پر کرایہ پر لے رکھا تھا۔ وہ گھر بھی تھا، بیٹھک بھی تھی اور نوائے وقت اخبار کا دفتر بھی تھا۔ حمید نظامی کا حوصلہ بلند تھا۔ مسلمانوں کے شعور کو بیدار کرنا ان کا مقصود تھا۔ اللہ نے ان کی مدد کی، دوست احباب اچھے مل گئے۔ کام کرنے والے ساتھ ہوئے۔ اس طرح 23مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے 27واں اجلاس منعقدہ سیشن میں نوائے وقت پندرہ روز کا شمارہ تیار ہوا اور برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناحؒ نے اس اجلاس میں اپنی جْدا منزل کا اعلان کیا۔ اس اجلاس میں نوائے وقت، وقت خاص میں موجود تھا۔ ہندو اخبارات، ویر بھارت، پرتاپ مسلمانوں کی آزادی کے خلاف تھے۔ لہٰذا یہ کانگریسی اخبارات صدر آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف کچھ نہ کچھ شائع کرتے رہے۔ نوائے وقت چھوٹا سا پندرہ روزہ ان کے ان جھوٹے حملے کے لئے ڈھال کا کام کرتا اور ڈٹ کر جواب لکھا جاتا ہے۔ یاد رہے ہفت روزہ مطلع صحافت پر 1942ء میں اْبھرا۔ جب نوائے وقت نے ہفت روزہ ہونے کا اعزاز پایا۔ اس سیڑھی پر چڑھنے کے لئے حمید نظامی کے بلند درجہ قوت بازو کا امتحان تھا۔ یہ سال سیاست اور صحافت کے لئے امتحان تھا۔ کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ (اعظم) ملک خضرحیات ٹوانہ نے سرسکندر حیات کی وفات کے بعد حکومت پنجاب کا چارج سنبھال لیا۔ ملک خضرحیات بھی مسلم لیگ کے مشن کے ساتھ تعاون نہ کر سکے۔ اس وجہ سے صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو ان کے خلاف 1944ء کے وسط میں عمل کرنا پڑا۔
صدر آل انڈیا مسلم لیگ قائداعظم محمد علی جناحؒ صحافت کو سیاست کا مضبوط حصہ سمجھتے تھے۔ تو پنجاب میں ان کے پاس ایک ہی فرد جوشیلا اچھی سوچ والا نوجوان حمید نظامی تھا جو معاشی اعتبار سے اتنا توانا نہ تھا مگر خودی کے اعتبار سے شیر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی خواہش تھی کہ لاہور سے روزنامہ اخبار مسلم لیگ کی ترجمانی کے لئے نکالا جائے۔ اخبار نکالنے کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عملہ کی ضرورت کے علاوہ کاغذ، پرنٹنگ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ قائداعظمؒ سے حمید نظامی کی ملاقات ممدوٹ ولاز میں ہوئی اور افتخار حسین ممدوٹ کے باہمی مشاورت سے ہفت روزہ نوائے وقت کو 15جولائی 1944ء سے روزنامہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ادھر پنجاب کی سیاست میں تبدیلی آئی۔ میاں ممتاز خان دولتانہ اور نواب افتخار حسین ممدوٹ کے درمیان سیاست کے گہرے بادل آ گئے۔ تاہم حمید نظامی اور نوائے وقت کو محترم حامد محمود کا تعاون ساتھ رہا۔ نوائے وقت سائیکلوں کے پیچھے باندھا جاتا اور لوگوں تک پہنچایا جاتا۔ نوائے وقت کو وقت پر نکالنا، لوگوں تک پہنچانا آسان کام نہ تھا۔ اشتہارات کی کمی، بندش اس کے لئے رکاوٹ بنتی رہی۔ لیکن یہ شمع حقیقت روشن رہی۔ 1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اتنی کامیابی نوائے وقت کے ایڈیٹرحمید نظامی کی انتھک محنت کے سبب میسر آئی۔ تحریک پاکستان میں حصے دار ہونا حمید نظامی کا بڑا اعزاز ہے اور زمانہ مشکلات کا تھا۔ ہندوئوں کا زور تھا۔ کانگریسی مسلمان اور ہندو ہر حربہ استعمال کر رہے تھے کہ کسی طرح یہ تحریک ناکام ہو جائے۔ مالی حالت کمزور ہونے کے باوجود ذرائع ابلاغ کو فروغ دینا بڑی ہمت اور قربانی ہے۔ نواب افتخار حسین ممدوٹ اور ان کے ساتھ راجہ حسن اختر اور خواجہ عبدالرحیم تھے۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی سے تعاون جاری رکھا۔ پنجاب کی سیاست میں پھوٹ ہو جانے سے مسلم لیگ کمزور ہو گئی۔ انگریز گورنر تھا۔ پنجاب کی سیاست کی وجہ سے حکومت پاکستان نے تحریک پاکستان کے نامور لیڈر سردار عبدالرب نشتر کو گورنر پنجاب مقرر کیا۔ سردار عبدالرب نشتر 2اگست 1949ء بذریعہ ریل گاڑی لاہور آئے۔ اس زمانے میں ہوئی جہاز کا سفر نہیں ہوتا تھا۔
ضروری امر یہ ہے کہ بڑی خوشگوار تبدیلی تھی۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر سردار صاحب کے استقبال کے لئے نواب افتخار حسین ممدوٹ، عبدالباری اور حمید نظامی موجود تھے۔ نوائے وقت کو ہر زمانے میں آنے والی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ میاں ممتاز دولتانہ کے وزیراعلیٰ کے دوران بھی نظامی صاحب نے اپنے اصولوں کی جنگ لڑی۔ نوائے وقت کچھ عرصہ بند رہا۔ جون، جولائی 1952ء سے دوبارہ اشاعت ہوئی۔ نہ وہ کسی کے سامنے جھکے، نہ اپنے دستور، اْصول اور ضمیر اور خودی کو چھوڑا۔ حالات چلتے رہے، سیاست کے نشیب و فراز کی وجہ سے 1958ء میں کمانڈر ان چیف آف پاکستان فورسز نے مارشل لاء 1958ء میں لگا دیا۔ جب مارشل لاء لگ گیا تو آزادی کے پروانوں کے لئے چمکنا دھمکنا کٹھن ہو گیا۔ فوج کے آرڈر مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ حمید نظامی قائداعظمؒ کے سپاہی تھے۔ مارشل لاء نے بھی سختی کی۔ تحریر و تقریر پر پابندی، تاہم یہ مارشل لاء اْن کے دل کو لے بیٹھا، بڑی کوفت ہوئی اور دو، تین روز علیل ہونے کے بعد 25فروری 1962ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مجید نظامی چھوٹے بھائی ان دنوں لندن میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہ واپس آئے اور نوائے وقت کو سہارا دیا اور آج تک بڑی کامیابی سے کارواں نوائے وقت جاری ہے اور نوائے وقت مجید نظامی کی سربراہی میں بین الاقوامی مارکیٹ میں اہم مقام پا گیا۔
حمید نظامی کے جنازہ میں شرکت کی، محبت و پیار کرنے والے لوگوں کا ہجوم تھا لوگ چاہنے والے، سیاست دان، اخبار نویس اور تحریک پاکستان کے لوگ شامل تھے پاکستان کی نظریاتی اساس کو اجاگر کرنے والا حمید نظامی دنیا سے اوجھل ہو گیا مگر اس کی نظریاتی اساس پاکستان کی جمہوریت کے بارے میں ارفع خیالات کو نئی نسلوں تک پہنچانے کے لئے خدا نے ان کے چھوٹے بھائی مجید نظامی کو بڑے اعلیٰ طریقہ سے بیدار رکھا۔ مجید نظامی صاحب کو بھی ہر حکومت کی طرف سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مگر مجید نظامی کے افکار، کردار میں مضبوطی رہی۔ اب مجید نظامی قومی وحدت کے فروغ کیلئے حق کی آواز جاری رکھے ہوئے ہیں۔