حال ہی میں ایک وزیر بے تدبیر کا بیان نظر سے گزرا کہ ’’ہم نیب کے پر نہیں کاٹنا چاہتے اس کے ناخن تراشنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ خبر پڑھ کر میرا ذہن حکمت و دانش کے انمول خزانے مثنوی مولانا روم کی طرف منتقل ہو گیا۔ جس میں ایک بادشاہ کے واقعہ کو کچھ اس طرح بیان کیا۔ بادشاہ کو شکار کا شوق ہوا تو اس نے اپنے ساتھ اپنا سب سے قیمتی باز لیا اور شکار کو نکل پڑا۔ باز شکار کے پیچھے اْڑتے اْڑتے بہت دور نکل گیا اور جب تھگ گیا تو ایک جھونْپڑی پر جا کر بیٹھ گیا۔ جھونپڑی میں ایک سادہ لوح بوڑھیا رہتی تھی۔ وہ باہر نکلی اور اپنی جھونپڑی پر ہانپتے کانپتے باز کو دیکھ کر اس کو ترس آ گیا۔ اسے اٹھایا اور پانی پلایا اچانک اس کی نظر باز کے ناخنوں پر پڑی جو کافی لمبے اور تیز تھے۔ بوڑھیا کو بہت دکھ ہوا اس نے باز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تیرے ناخن اتنے بڑھ چکے ہیں اور آج تک کسی نے تراشے ہی نہیں۔ تیرے مالک بہت بیوقوف ہیں، میں تمہارے ناخن تراش دیتی ہوں اس نے قینچی پکڑی اور بڑی محبت سے ایک ایک کر کے باز کے سارے ناخن تراش دئیے۔ اتنے میں بادشاہ بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ باز کو ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ جب بادشاہ نے باز کو دیکھا اور اس کے ناخن کٹے دیکھے تو اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔ مولانا روم کی یہ حکایت بیان کرتی ہے کہ وہی ناخن جن سے باز نے شکار کرنا تھا احمقانہ خیر خواہی میں بڑھیا نے اس کی صلاحیت کا خون کر دیا۔ نیب کے ناخن تراشنا کچھ اسی طرح کی صورت حال کی غمازی کرتا ہے۔ ویسے ناخنوں کی بھی کئی اقسام ہیں ان میں سے ایک قسم ناخن تدبیر کی ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے …؎
آں کار کہ بناخن تدبیر نکشاید
بگزار بتقدیر کہ تدبیر ہمیں است
’’وہ کام جو ناخن تدبیر سے نہ سدھر سکے پھر اسے تقدیر کے حوالے کر دو یہی تدبیر بہتر ہے‘‘ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اول تو ناخن تدبیر ہیں ہی نہیں اگر ہیں تو ہم اسے اپنے مفادات کی قینچی سے کاٹ پھینکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مخلص اور دانا حکمران اپنے ناخن تدبیر استعمال کر کے بڑے بڑے کرائسزسے اپنی قوم کو باعزت نکال لے گئے۔ ہمارے ہاں ناخن تدبیر کی حالت انتہائی دگرگوں ہے وہ مسائل جو قوم کے لیے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ ان کو حل کرنا حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ بدامنی، چوری، ڈاکہ زنی اور دن دیہاڑے لوٹ مار نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔مہنگائی کا عفریت ہے تو کم آمدنی اور متوسط طبقہ کو نگل رہا ہے۔ اشیائے صرف کی کوالٹی اور کوانٹٹی پر چیک اور کنٹرول کا کوئی نظام ہی نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریض رل رہے ہیں، نہ ادویات ہیں نہ اہم مشینری۔ صحت اور تعلیم کے بجٹ سے رقوم دیگر نمائشی منصوبوں میں منتقل کر دی جاتی ہیں یہاں تک کہ فوت ہو جانے والے سرکاری ملازمین کے بچوں کی ماہانہ مالی امداد کی رقم کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ ضرب عضب قوم کے لیے نئی زندگی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ لیکن اس پر بھی عسکری ماہرین آزردہ دلی سے کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف فوج تو سرگرم ہے فالو اپ کرنے والے ادارے سوئے ہوئے ہیں۔ یہ ہے صورت حال اپنے ناخن تدبیر کی اور ان اداروں کے ناخن تراشنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے جن کے ناخن تدبیر کچھ فعال ہیں، جو قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے واپس دلا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں بھی سب اچھا نہیں لیکن اس کا حل ناخن تراشنے میں نہیں۔ خونخوار اور جنگلی جانوروں کو جب سدھار لیا جاتا ہے تو اپنے تیز نوکیلے ناخنوں اور اپنے خونخوار دانتوں کی تیزی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ باز جیسے پرندے کو جب سدھارا جاتا ہے تو وہ جو شکار کرتا ہے نہ اس میں ناخن گاڑتا ہے نہ اس میں سے کھاتا ہے بلکہ شکار کو صحیح سالم پکڑ کر اپنے مالک کے حوالے کرتا ہے۔ نیب کے بھی ناخن کاٹنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب نیب سدھر گئی تو پھر وہ شکار تو کرے گی لیکن اس میں سے اپنا حصہ نہیں کھائے گی اور نہ ہی اس شکار میں ناخن گاڑے گی، شفافیت کا نظام قائم ہو گا۔ لیکن جب اس کے ناخن ہی تراش دیئے جائیں گے تو وہ شکار کو کیسے پڑ سکے گی؟ ناخن تدبیر تو مشکلات اور مصائب کوچنتے ہیں اورعوام کیلئے فلاح، ترقی اور خوشحالی کے راستے کھولتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہا ں ناخن تدبیر توغائب ہیں لیکن ناخن تخریب ضرور موجود ہیںجواس قدرلمبے اور میلے ہیںجو نہ صرف عوام کو زخمی کر رہے بلکہ ملک کو بھی نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ بلکہ ہر ادارے کے اپنے ناخن ہیں جو اس قدر تیز اور نوکیلے ہیں کہ جو بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ان اداروں کی کرپشن کو پکڑنے یا بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا یہ اس میں اپنے ناخن گاڑ دیتے ہیں۔ یا اپنے تیز ناخنوں سے اس کا چہرہ بھی نوچنے لگتے ہیں۔ اگر کہیں ناخن کاٹنے کی ضرورت ہے تو ایسے میلے اور گندے ناخن کاٹنے کی ضرورت ہے جو اپنے خونی ناخنوں کی وجہ سے ہمیشہ قانون کی گرفت سے بچ نکتے ہیں۔ نیب جیسے اداروں کی بے ضابطگیوں، غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو کنٹرول کرنے اور خرابیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے نہ ان کے ناخن تدبیر کاٹ کر ان کے اختیارات محدود کرنے کی۔