بھٹو لیگیسی اور زرداری فلاسفی

فوجی قیادت کو چیلنج کرنے اور کوسنے دینے کے بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ان کے منصب پر برقرار رکھنے کی وکالت پر مختلف حلقوں میں مختلف تھیوریاں زیر گردش ہیں۔ اگرچہ شیری رحمان اور ایک اینکر پرسن کی زبانی زرداری صاحب کے اس بیان کی تردید کرائی گئی ہے تاہم ان کے اس بیان کے ساتھ ہی آرمی چیف کو ان کے منصب پر توسیع دلوانے کے لئے پنجاب اسمبلی میں قرارداد لانے والے پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی خرم جہانگیر وٹو جو پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو کے صاحبزادے اور پیپلز پارٹی میڈیا سیل کی انچارج جہاں آرا وٹو کے بھائی ہیں، اس قرارداد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور آرمی چیف کی وکالت بھی کر رہے ہیں تو راز و نیاز کے یہ معاملات ایسے ہی طے نہیں ہو گئے۔ ہمارے کالم نگار نصرت جاوید صاحب کے ذرائع نے تو انہیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ آصف زرداری صاحب کے نام سے شائع ہونے والے بیان کا متن آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے درج فقرے کاٹ کر خود زرداری صاحب نے میڈیا کو جاری کرنے کی اجازت دی تھی اور اس سے قبل چند صحافیوں کو ٹیلی فونک پیغامات کے ذریعے اس بیان سے آگاہ بھی کر دیا گیا تھا اس لئے بیان جاری کرنے کی حکمت کی طرح اس بیان کی تردید میں بھی کوئی حکمت کارفرما ہے جو بھٹو ازم والی پیپلز پارٹی کی اصولی سیاست کے برعکس زرداری سیاست کا شاہکار ہے۔
زرداری صاحب سے منسوب بیان پر کانا پھوسی کے بعد زبانِ زدعام ہونے والی تھیوریوں میں سے ایک تھیوری یہ سامنے آئی ہے کہ نیب کے خلاف وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیان پر عسکری حلقوں کے نواز حکومت کے خلاف ’’خوشگوار‘‘ ردعمل کو بھانپ کر زرداری صاحب نے ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ والی پالیسی اختیار کی ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے آرمی چیف کو ان کے منصب پر برقرار رکھوانا ضروری ہے۔ اس تھیوری کو درست مانا جائے تو زرداری صاحب نے اپنی اس سوچ کے تحت فوجی آمریتوں کو مسلسل چیلنج کئے رکھنے والے پیپلز پارٹی کے بھٹو ازم اور محض اپنے اقتدار کی خاطر آئندہ کسی طالع آزما کو سیاسی کندھا فراہم نہ کرنے کے عہد پر مبنی محترمہ بینظیر بھٹو کے میاں نواز شریف اور اے آرڈی کے دوسرے قائدین کے ساتھ طے کئے گئے میثاق جمہوریت کو قبر کھود کر خود ہی دفن کر دیا ہے۔
زرداری صاحب کے ’’جنرل نواز‘‘ بیان کی زیر گردش دوسری تھیوری گردن کی جانب پھندا آتے دیکھ کر جان بچائو فلسفے پر مبنی ہے جس کے لئے ’’مخبروں‘‘ کی اطلاع کے مطابق زرداری صاحب کو اس بیان کے لئے ان کی جان کو عزیز رکھنے والی بہن فریال تالپور نے قائل کیا ہے۔ اس وقت عزیر بلوچ اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا زرداری فیملی کی جان کو آئے ہوئے ہیں اور گھر کی بلی لنکا ڈھائے کا سماں باندھ رہے ہیں۔ اس فضا میں فوجی قیادت کو چیلنج کرنے والے زرداری صاحب کے بیان سے عسکری حلقوں کے ساتھ پیدا ہونے والا تلخی کا ماحول برقرار رہتا ہے تو راز و نیاز کے سارے معاملات کھولتے عزیر بلوچ اور ذوالفقار مرزا زرداری فیملی کے لئے ہر سائز کے پھندے تیار کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ فریال تالپور نے مبینہ طور پر زرداری صاحب کو جان بچائو فلسفہ پر کاربند ہونے کے لئے تیار کیا اور زرداری صاحب سے منسوب بیان بھائی بہن کے اس اتفاق رائے کا ہی شاخسانہ ہے۔ ایک اور تھیوری پیپلز پارٹی کی آج کی صف بندی کے حوالے سے سامنے آئی ہے کہ اس وقت اس پارٹی کی صفوں میں ان لوگوں کی غالب اکثریت موجود ہے جو فوجی آمروں کی انگلیاں اور دامن تھام کر اقتداری سیاست میں شریک ہوئے تھے خود زرداری صاحب اسی سیاست کا صدقہ کھا رہے ہیں جنہوں نے اپنے والد مرحوم حاکم علی زرداری کے ہمراہ اے این پی کے پلیٹ فارم پر نہ صرف ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت کی بلکہ ان کی جانب سے بھٹو مرحوم کی سزائے موت کی توثیق پر مٹھائی بھی تقسیم کی تھی چنانچہ ماضی کے ایسے پس منظر والے پیپلز پارٹی کے ارکان و عہدے داران کے ساتھ زرداری صاحب کی یکجہتی کی فضا خاصی مستحکم ہے جو اب انتخابی عمل میں تو پیپلز پارٹی کے اقتدار سے مایوس ہو چکے ہیں اس لئے اقتدار میں حصہ داری کی خاطر وہ جمہوریت پر نئے شب خون کے لئے میثاق جمہوریت کو دفن کر کے طالع آزما جرنیلوں کو اپنا کندھا فراہم کرنے کے لئے بیتاب ہیں اور زرداری صاحب کا ’’جنرل نواز ‘‘ بیان پیپلز پارٹی کے ایسے سارے ہم خیالوں کے باہم اتفاق رائے کا نتیجہ ہے۔ اس تھیوری کو تقویت میاں منظور وٹو کے صاحبزادے خرم جہانگیر وٹو نے آرمی چیف کے منصب کی توسیع کے لئے پنجاب اسمبلی میں قرارداد لا کر پہنچائی ہے جو زرادری صاحب سے منسوب بیان کی تردید کے باوجود قرارداد واپس لینے کو تیار نہیں اور آرمی چیف کو توسیع دینے کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔
ان ساری تھیوریوں میں جو تھیوری بھی زرداری صاحب کے ’’جنرل نواز‘‘ بیان کی نوبت لانے کا باعث بنی ہے وہ پیپلز پارٹی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی اصولی سیاست کو دفن کر کے ہی لاگو ہوئی ہے اس لئے آج کی پیپلز پارٹی کا بھٹو ازم اور جیالا ازم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رہا۔
میں نے بھٹو مرحوم کی سیاست سے کبھی اتفاق نہیں کیا اور 1977ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران جیالا کلچر کو جان لیوا پولیس تشدد، بلوے، ڈکیتی، کارِ سرکار میں مداخلت اور نہ جانے کن کن الزمات پر مبنی 18 مقدمات اور پولیس حوالات سے جیل تک کی سزا کی صورت میں بھگتا ہوا ہے، اس کے باوجود میں بھٹو مرحوم کو مفاہمت نہ کرنے والا بااصول سیاسی لیڈر سمجھتا ہوں جن کے پاس ضیاء کی جرنیلی آمریت کے دوران ضیاء الحق سے مفاہمت کر کے اقتدار میں موجود رہنے اور پھر اپنی گردن سے پھانسی کا پھندا ٹالنے کے کئی مواقع آئے مگر انہوں نے اپنے سیاسی اصولوں سے نہ خود انحراف کیا نہ اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو کرنے دیا۔ ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند کیا اور پھر سیاسی مفاہمت کیلئے خود ان کے پاس پہنچ گئے اور انہیں فوجی اقتدار میں شامل ہونے کی پیشکش کی مگر بھٹو مرحوم نے یقیناً اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ پھر لاہور ہائیکورٹ میں اپنے خلاف نواب محمد احمد خاں کے قتل کے مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ بنچ کے سربراہ مولوی مشتاق حسین کے سامنے اپنے اصولوں کا ڈنکا بجاتے رہے جو پہلے ہی ان کے ساتھ مخاصمت رکھتے تھے۔ اس بنیاد پر انہیں مولوی مشتاق سے انصاف کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ انہیں وکلاء کے بعض عسکری حلقوں کی جانب سے مشورے ملے کہ وہ مولوی مشتاق کے ساتھ مفاہمت کر لیں اور ان کی انا کو مجروح کرنے سے گریز کریں مگر انہوں نے مولوی مشتاق کے آگے جھکنا گوارا نہ کیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران میں نے خود بھٹو مرحوم اور مولوی مشتاق کے مابین تلخ جملوں کے تبادلوں اور تُوتکار تک ہوتے دیکھی۔ وہ اپنے اس رویے پر خود کو برحق سمجھتے تھے اس لئے وہ اپنی سزا میں نرمی کی خاطر مولوی مشتاق سے کسی مفاہمت کی راہ پر نہ آئے جس کا خمیازہ بالآخر انہوں نے موت کی سزا کی صورت میں بھگتا۔ پھر جب سپریم کور ٹ نے ان کی سزائے موت کی توثیق کی تو بعض عسکری حلقوں نے بیگم نصرت بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے روبرو رحم کی اپیل دائر کرنے پر قائل کر لیا۔ وہ رحم کی اپیل کا مسودہ بھٹو مرحوم کے پاس جیل میں لے کر گئیں تو انہوں نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو رحم کی اپیل دائر کرنے سے روک دیا اور کہا کہ میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے فوجی جرنیل سے رحم کی بھیک مانگنے کے بجائے ان کی پھانسی بھگت کر تاریخ میں امر ہونا پسند کروں گا۔ ذرا آج ان اصولوں کے پیمانے پر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے گراف کو جانچیں تو یہ کہیں نچلی سطح پر بھی نظر نہیں آئے گا۔ اگر آج اس پارٹی میں بھٹو لیگیسی کا کہیں وجود ہی نظر نہیں آ رہا تو پھرزرداری فلاسفی میں بڑھکیں لگانے سے پائوں پڑنے تک سب جائز ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ زرداری صاحب نے ’’جنرل نوازی‘‘ پر مبنی اپنے بیان کی تردید پر بھی ابھی تک اپنی زبان سے کوئی لفظ کیوں ادا نہیں کیا۔ کیا ان کی زبان کسی اور کے منہ میں آ گئی ہے؟

ای پیپر دی نیشن