لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کی من مانیاں روکنے کےلئے قانون منظور کر لیا، تمام نجی تعلیمی ادارے رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے، نجی تعلیمی ادارے کو رجسٹریشن کے بغیر چلانے پر3لاکھ سے 40لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جا سکے گا، بل کے تحت تعلیمی اداروں کو داخلہ، سکیورٹی، لیبارٹری فیس لینے اور از خود فیسوں میں اضافے سے بھی روک دیا گیا۔ ایوان نے ہندوﺅں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے لئے قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر لی۔ اقلیتی رکن نے مسیحیوں، سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں کے قوانین میں بھی ترامیم کا مطالبہ کر دیا۔ وزیر قانون رانا ثنا نے مسودہ قانون (ترمیم) (ترویج و انضباط) نجی تعلیمی ادارہ جات پنجاب 2015ءپیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن نے اپنی ترامیم واپس لیتے ہوئے بعض تجاویز دیں۔ بل کے مطابق نجی تعلیمی ادارے از خود فیسوں میں اضافہ نہیں کر سکیں گے۔ فیس میں اضافے کے لئے تعلیمی سال کے آغاز سے کم از کم تین ماہ پہلے رجسٹریشن اتھارٹی کو درخواست دی جائے گی۔ مجوزہ اضافے کی وجوہات اور جواز درج ہوگا اور درخواست کے حق میں تمام مطلوبہ دستاویزات یا ثبوت درخواست کے ساتھ منسلک ہوں گے۔ زائد فیس وصول کرنے والے ادارے طالب علم کو اضافی فیس واپس یا ایڈجسٹمنٹ کرنے کے پابند ہوں گے۔ تعلیمی ادارے والدین کو کسی مخصوص مقام سے نصابی کتب، یونیفارم یا دیگر مواد خریدنے کا پابند نہیں کر سکیں گے۔ رجسٹریشن اتھارٹی نجی تعلیمی ادارے کو فیس میں معقول اضافے کی اجازت دینے کی مجاز ہو گی، نجی تعلیمی ادارے سابقہ تعلیمی سال کے دوران وصول کردہ فیس کے پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہیں کر سکیں گے، فیس سٹرکچر 2016ءمیں بھی وہی ہو گا جو 2015میں تھا۔ رجسٹریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں کو 20ہزار یومیہ جرمانہ ہو گا اگر 30 روز کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا جائے گا تو تعلیمی ادارے پر 20لاکھ روپے کی پینلنٹی عائد کی جا سکے گی۔ رجسٹریشن اتھارٹی خلاف ورزی کرنے والے تعلیمی اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی بھی مجاز ہو گی، بل کی منظوری کے بعد کوئی بھی نجی تعلیمی ادارہ کسی طالبعلم سے پہلے سے وصول کردہ فیس سے زائد فیس وصول نہیں کر سکے گا۔ ہندوﺅں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے لئے قرار داد وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندوﺅں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے لئے آئین میں قانون سازی کی جائے۔ وقفہ سوالات میں صوبائی وزیر چوہدری شیر علی نے کہا کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پاور پلانٹس کی تنصیب سے فضائی آلودگی کے بڑھنے سمیت طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں جن میں قطعاً کوئی صداقت نہیں۔ ہائیڈل پیداوار کیلئے کئی نجی کمپنیوں نے منصوبے لگانے کے لئے حکومت سے لیٹر بھی حاصل کئے لیکن ان پر کام نہیں کیا گیا ۔اب حکومت ایسی تمام کمپنیوں کے لیٹر منسوخ کر رہی ہے نئی کمپنیوں کو اجازت دینے کےلئے دوبارہ اشتہار دیا جائے گا۔ چار مقامات پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ہائیڈل پاور پراجیکٹ لگائے جارہے ہیں۔ ان منصوبوں پر چائنیز کام کر رہے ہیں او رسکیورٹی وجوہات کی بناءپر انہیں سائٹ سے ہٹا دیا گیا اس سال دوبارہ کام شروع کر دیا جائے گا اور اسے مکمل بھی کیا جائے گا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کی طرف سے اس طرح کے منصوبوں کےلئے دئیے جانے والے قرض پر شرح سود انتہائی کم ہوتا ہے۔ سولر پاور کے منصوبوں کے تحت مزید 900میگا واٹ کے منصوبے لگائے جانے ہیں اور ایک چینی کمپنی زونرجی اس سال 300میگا واٹ کے منصوبوں پر کام شروع کرے گی اور یہ بھی سی پیک منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے گھریلو صارفین کے لئے سولر انرجی سسٹم لگانے میں تعاون دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میںکہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ جس طرح بینک شہریوں کو گاڑیوں سمیت دیگر اشیاءکی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھاتے ہیںاسی طرح اس کے لئے بھی آسان شرائط پر قرض دئیے جائیںاور اس کے لئے بینک آف پنجاب کی خدمات لی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ بڑے گھروں کو سولر پر لایا جائے کیونکہ ایک بڑا گھر پورے محلے جتنی بجلی استعمال کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس بند ہو رہے ہیں لیکن یہ حقائق بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ کونسے پلانٹس بند کئے جارہے ہیں یہ وہ پلانٹس ہیں جو 50 اور 60 کی دہائی میں لگائے گئے تھے او راب جدید پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ بھارت پنجاب میں چائنیز کمپنیز نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے 30ہزار میگا واٹ کے منصوبے لگائے ہیں۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ہمارے ملک کی بجلی کی ضروریات ہر سال بڑھ رہی ہیں ہمیں صرف کوئلے سے ہی بجلی پیدا کرنا پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ہمیں گیس، ہائیڈل اور ونڈ سمیت جس ذرائع سے بجلی پیدا کر سکیں ہمیں وہ بجلی پیدا کرنا ہو گی۔ ہمارے پاس تربیلا اور منگلا دو بڑے ذرائع ہیں لیکن ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان ذخائر سے وزارت پانی و بجلی کی ڈیمانڈ کے مطابق پانی کا اخراج نہیں ہوتا بلکہ صرف زراعت کے محکموں کی ڈیمانڈ پر اخراج کیا جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم تمام صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر نہیں بننا چاہیے لیکن جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو پنجاب کو کیس لڑنا ہے اوراسے چھوڑنا نہیں اور ہمیں دوسرے صوبوں کوقائل کرنا ہے اور اسکے لئے بیشک مشترکہ مفادات کونسل یا کسی اور پلیٹ فارم پر جایا جائے کیونکہ یہ منصوبہ قومی مفاد میں ہے۔ حکومتی رکن ارشد ملک نے کہا کہ ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پاور پلانٹ کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور عوام کو تحفظات ہیں کہ اس سے آلودگی میں اضافہ ہو جائے گا، یہاں درخت لگانے کا کہا گیا وہ کب لگیں گے؟ جس پر صوبائی وزیر انرجی نے جواب دیا کہ یہاں مارچ میں تیس ہزار درخت پلانٹ کئے جائیں گے۔ حکومتی رکن میاں طارق محمود نے کہا کہ نیشنل کاز کےلئے سب کو اکٹھے چلنا ہے ۔ کالا با غ ڈیم بننا چاہئے اور ہمیں حکومت بچاﺅ، سیاست بچاﺅ سے باہر نکلنا چاہیے اور سارا ہاﺅس یہ مطالبہ کرتا ہے۔ تحاریک التوائے کار پیش کرنے کے دوران تحریک انصاف کے عارف عباسی نے کورم کی نشاندہی کی اور اسپیکر کی طرف سے پانچ منٹ کےلئے گھنٹیاں بجانے کی ہدایات کے بعد دوبارہ گنتی پر کورم پورا نہ ہو سکا جس پر سپیکر نے اجلاس اجلاس پندرہ منٹ کےلئے ملتوی کر دیا۔ بعدازاں ایجنڈا مکمل ہونے پر سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
پنجاب اسمبلی
فیسوں میں من مانے اضافے پر نان رجسٹرڈ تعلیمی ادارے کو چالیس ‘ رجسٹرڈ کو بیس لاکھ تک جرمانہ ہو گا ‘ پنجاب اسمبلی میں بل منظور
Feb 27, 2016