بھارتی چینل پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں ،شرکت کرنے والے مہمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ ہم کس طرح پاکستان کو سبق سکھاسکتے ہیں۔تو جواب میں مہمان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے لڑنے کیلئے سرحد پر جنگ کرنے کی اب شاید اتنی ضرورت نہیں۔کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلیئے باہر سے کسی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ہاں البتہ پیسوں کے عوض اپنے ہی ملک کے خلاف کام کرنے والے لوگ باآسانی پاکستان میں ہی مل سکتے ہیں۔کہنے کو تو یہ ایک دشمن ملک کی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتی ہے۔لیکن جب ہم اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس میں حقیقت کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔لیکن دوسرا پہلو اس کا پروپیگنڈے سے تعلق رکھتا ہے کہ ایسا مواد نشر کیا جائے کہ عسکری ادارے اپنے ہی عوام کوشک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔اب ایک تو راستہ یہ ہے کہ آپ بھی جوابی طور پر کچھ ایسا ہی کریں ،لیکن صرف گولی کا جواب گولی سے دینا ہی کمال نہیں کیونکہ ایسے آپ اس جنگ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکیں گے البتہ وقتی طور پر سب کچھ تھم جائے گا۔پاکستان میں سیاسی حکومتوں کا تسلسل تو بر قرار ہے لیکن نچلی سطح تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں پہنچ رہے ہیں۔ بنیادی ضرورتیں جن میں صحت ،تعلیم ،روزگار جیسے مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں۔دنیا بھر میں سیکورٹی اداروں کا یہ معمول کا کام ہوتا ہے کہ وہ ملک کے خلاف ہونے والی کسی بھی قسم کی سازش یا شر پسند عناصر کے خلاف مصروف عمل رہتے ہیں۔اسی طرح پاکستان میں جاری آپریشن پر بھی کسی بھی محب وطن شہری کو کوئی اعترض نہیں ہے۔ جو بات نظر آتی ہے وہ ہے حساس اداروں کی آپس میں خفیہ معلومات پر بروقت تبادلہ خیال اور عملدرآمد کا ہے ،جبکہ میڈیا تک حساس معلومات تک پہنچنا اور بریکنگ نیوز کی صورت میں اس کی تشہیر بھی بعض اوقات انٹیلی جینس اداروں کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔کیونکہ میڈیا پر دہشت گردی سے متعلق حساس معلومات کے نشر ہونے سے شرپسند عناصر مزید محتاط ہو کر ،منظم طریقے سے کاروائیاں کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔دوسری طرف سول اداروں کو اپنے کردار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ جب تک نیشنل ایکشن پلان سمیت ایسے تمام اقدامات نہ کیے جائیں جس سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔مثال کے طور پر ملک میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں کو روزگار حاصل کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔ جب لوگ شہروں میں آکر بھی اپنے لیئے روزگار حاصل نہیں کر پاتے تو وہ باآسانی ایسے گروہ ،یا پھر ایسی تنظیم کا شکار بن جاتے ہیں اور ایسے افراد کو محض چند رپوں کے عوض ملک کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ دوسرا پہلو شہری حکومتوں کا ہے جو اپنے وسائل کے حصول کیلیئے صوبائی حکومتوں سے الجھی رہتی ہیں۔شہروں کے تجارتی علاقوں میں سڑک کے کنارے لگے ہوئے پتھارے جہاں شہر کی خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں وہیں پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان پتھاروں کاقبضہ محض 700سے 1000روپے ہفتہ پرمتعلقہ اداروں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس رقم میں پولیس اور شہری حکومت دونوں کا حصہ شامل ہے۔ شہر کے کسی بھی مصروف تجارتی مقام پر 4 ہزار ماہانہ پر پتھارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔جو ہر لحاظ سے ملک کی سیکورٹی کیلیئے ایک چیلنج ہے۔ملک میں قائم سول حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں اور سب کچھ دوسروں کیلیئے نہیں چھوڑیں۔حکومتوں کے قیام میں لوگوں کے ووٹ کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔ایسے حالات میں جب لوگ دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں ،سول حکومت کو بھی لوگوں کی مدد اور بھلائی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کرنا چاہیے۔اس کا واضح لائحہ عمل نیشنل ایکشن پلان میں موجود ہے۔جو کہ حکومت ،سیاسی جماعتوں اور اداروں کی مشترکہ کاوشوں سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک ایسی تعلیمی پالیسی اور طریقہ کار بنایا جائے جس کے ذریعے انتہا پسندی کو ختم کیا جاسکے۔ انتہا پسندی اگر دیکھی جائے تو یہ عدم برداشت کا دوسرا نام ہے۔یعنی یہ ذہن میں بٹھا لینا کہ صرف ہماری بات اور نظریہ صحیح ہے جبکہ باقی سب لوگ غلط ہیں۔پھر اس نظریئے کو نافذ کرنے کے لیئے شدت پسندی کے طریقوں کو اختیار کیا جائے۔جس میں مار دھاڑ سے لے کر ، اغوا اور خود کش دھماکے تک شامل ہیں۔یہ سوچ یہ نظریہ اس کو نافظ کرنے کے طریقہ کار کو کسیے روکا جائے اس کیلیئے سب سے اچھا طریقہ کا رائے عامہ کو منظم کرنا ہے۔اس میں جہاں میڈیا کا اہم رول ہے وہیں پر تعلیم کا بنیادی کردار ہے۔ہر سطح پر عوام کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہم سب ایک ہی قوم کے فرد ہیں۔نظریاتی اختلافات صرف بحث مباحثوں تک محدود رہنا چاہیئے اور اسی کے ذریعے ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ،نہ کہ بم یا بندوق کا استعمال کیا جائے۔ بالآخر اس کا نقصان جہاں ہلاک ہونے والوں کا ہے تو وہیں ہلاک کرنے والے بھی گھاٹے میں رہتے ہیں۔کیونکہ ملک کا امن وامان تباہ ہوتا ہے تو معیشت بیٹھنے لگتی ہے۔معیشت تباہ ہو تو روزگار کے مواقع کم ہونے لگتے ہیں۔بے چینی اور افراتفری پروان چڑھتی ہے اور بالآخر تنزولی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔کیا یہ صورت حال کسی بھی ملک کے رہنے والے فرد کیلیئے قابل قبول ہوسکتی ہے۔یقینا نہیں۔اس سے مرنے اور مارنے والے کیلیئے اپنے ہی وطن کی زمین تنگ ہونے لگتی ہے۔اور اس کے کیا نتائج ہوتے ہیں اس کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں۔اپنے ملک میں دیکھنا ہو تو افغان باشندوں کا حال دیکھ سکتے ہیں پاکستان انہیں رکھنے کیلئے تیار نہیں اور افغانستان انہیں لینے کے لیئے تیار نہیں۔ذرا آگے جائیں تو مشرق وسطی میں شامی خانہ جنگی کے اثرات دیکھ لیں۔ایک کروڑ 20 لاکھ افراد جو سب کے سب مسلمان ہیں اپنی سرحدوں پر ،دوسرے ملکوں میں اور سمندر کی لہروں پر بے آسرا مارے مارے پھر رہے ہیں۔کیا کسی بھی فرد یا قوم کے لیئے یہ صورت قابل قبول ہوسکتی ہے ؟۔ہمارے لیئے دعوت فکر ہے۔