فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ پاکستانی گزشتہ چالیس سال سے انگلینڈ میں رہائش پذیر ہیں ۔وہ گاہے بگاہے پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کے بارے میں مجھے آگاہ کرتے رہتے ہیں تاکہ میں فرقوں میں بٹی ہوئی اور باہمی انتشار کا شکار پاکستانی قوم کو ان کے خلاف ہونیوالی سازشوں سے بروقت آگاہ کرسکوں ۔گزشتہ روز انہوںنے ایک حقیقت پر مبنی تجزیہ انگلینڈ سے ارسال کیا۔ جس کو پڑھنے کے بعد تو میرا دماغ شل ہوگیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ امریکہ، بھارت،اسرائیل ہمارے ملک میں انتشار اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کس قدر متحرک ہیں اور اندورن ملک عوامی ، سیاسی اور حکومتی قائدین ایک ایسی نہ ختم ہونیوالی جنگ میں پوری طاقت سے شریک ہیں جو ملک دشمن طاقتوں کے مہلک ترین ایجنڈے کو وقت سے پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچاسکتی ہے ۔ ہم تو شامی اور برمی مسلمان کے ہولناک واقعات پر آنسو بہارہے ہیں لیکن امریکہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کو بھی شام جیسے حالات سے (منہ میں خاک ) دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔میں ظفر زمان چشتی کی انگلینڈ سے بھیجی ہوئی رپورٹ کو اپنے کالم کا حصہ بنارہا ہوں تاکہ ہمارے حکمران ، سیاست دان اور عسکری ماہرین اس پر غور کرکے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اپناسکیں ۔ "پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سب سے بڑی ایکٹو جنگی سرحد ہے جو کہ 3600کلومیٹر طویل بنتی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان ہی دنیاکا واحد ملک ہے جو بیک وقت تین خوفناک جنگی ڈاکئرائنز کی زد میں ہے ۔ جس کے بارے میں بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہے جو انڈین جنگی حکمت عملی ہے جس کے لیے انڈیاکی کل فوج کی سات کمانڈز میںسے چھ پاکستانی سرحد پر تعینات ہو چکی ہیں۔ یہ بھارت کی تقریبا 80 فیصد سے زیادہ فوج بنتی ہے اور اس ڈاکئرائن کے لیے انڈین فوج کی مشقیں ، فوجی نقل و حمل کے لیے سڑکوں ،پلوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر اور اسلحے کے بہت بڑے بڑے ڈپو نہایت تیز رفتاری سے بنائے جارہے ہیں ۔اس ڈاکئرائن کے تحت صوبہ سندھ میں جہاں بھارت کو جغرافیائی گہرائی حاصل ہے ۔وہ تیزی سے داخل ہوکر سندھ کو پاکستان سے کاٹتے ہوئے گوادر کی طرف بڑھیں گی اور مقامی طور پر ان کو سندھ میں جسقم اور بلوچستان میں بی ایل اے کی مدد حاصل ہوگی ۔ پاکستان کواصل اور سب سے بڑا خطرہ اسی سے ہے اور پاکستان آرمی انڈین فوج کی ایسی نقل و حرکت کو مائنیٹر کرتے ہوئے اپنی جوابی حکمت عملی تیار کررہا ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ،پاکستان آرمی کی" عزم نو "مشقوں کے بار ے میں جوپچھلے کچھ سالوں سے باقاعدگی سے جاری ہیں ۔ یہ بھارت کی کولڈ سٹارٹ ڈاکئرائن کا جواب تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت پاک آرمی جارحانہ دفاع کی تیاری کررہی ہے ۔ گو کہ اس معاملے میں طاقت کا توازن بری طرح ہمارے خلاف ۔انڈیا کی کم ازکم دس لاکھ فوج کے مقابلے میں ہماری صرف دو سے اڑھائی لاکھ فوج دستیاب ہے کیونکہ باقی فوج امریکن ایف پاک ڈاکئرائن منصوبے کی زد میں ہے ۔ امریکن ایف پیک ڈاکئرائن باراک اوباما ایڈمنسٹریشن کی پاکستان کے خلاف جنگی حکمت عملی ہے جس کی تحت افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے کرجانا ہے اورپاکستان میں پاک آرمی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کروانی ہے ۔ درحقیقت یہی وہ ڈاکئرائن ہے جس کے تحت اس وقت پاکستان کی کم ازکم دو لاکھ فوج حالت جنگ میںہے اور اب تک ہم کم ازکم اپنے 20 ہزار فوجی گنوا چکے ہیں جو پاکستان کی بھارت کے ساتھ تینوں جنگوں میںشہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے ۔ اس جنگ کے لیے امریکہ اور بھارت کا اآپس میں آپریشنل اتحاد ہے اور اسرائیل کی تیکنیکی مدد بھی حاصل ہے ۔ اس کے لیے کرم ایجنسی اور ہنگو میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے اور وادی سوات میں نفاذ شریعت کے نام پر ایسے گروہ کو مسلط کیاگیا ،جنہوں نے وہاں کے عوام پر مظالم ڈھائے اور فساد برپاکیا جس کے لیے مجبورا پہلی بار پاک فوج کوان کے خلاف ان وادیوں میں داخل ہوناپڑا ۔ پاک فوج نے عملی طور پر ان کو پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن نظریاتی طور پر اب بھی ان کو بہت سے حلقوں کی سپور ٹ حاصل ہے اس کی وجہ تیسری جنگی ڈاکئرائین ہے جس کے ذریعے امریکہ اور اس کے اتحادی پاک آرمی پر حملہ آور ہیں اور اس کو فورتھ جنریشن وار کہاجاتاہے ۔ فورتھ جنریشن وار ایک نہایت ہی خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پید ا کی جاتی ہے ، مرکزی حکومتوں کو کمزوراور صوبائیت کو ہوا دیجاتی ہے لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں ۔عوام میںمختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایاجاتاہے اس مقصد کے لیے کسی ملک کامیڈیا خریدا جاتاہے اور اس کے ذریعے ملک میں خلفشار ، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے ۔ فورتھ جنریشن وار کی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ ،عراق اور لیبیا کاحشر کردیا۔ اب اس جنگی حکمت عملی کو پاکستان اور شام پر آزمایا جارہا ہے ۔پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے بھی امریکہ انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ بارک اوباما نے اپنی زبان سے کہا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا میں 50 ملین ڈالر سالانہ خرچ کریں گے۔ آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کس مقصد کے لیے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جائے گی جبکہ انڈیا کاپاکستانی میڈیا پر اثرو رسوخ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس وقت ساری پاکستانی قوم اس امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے ۔یہ واحد جنگ ہوتی ہے جس کا جواب آرمی نہیں دے سکتی ، آرمی اس صلاحیت سے محروم ہوتی ہے ۔ چونکہ پاک آمی کو امریکن ایف پاک ڈاکئرئن کے مقابلے پر نہ عدالتوںکی مدد حاصل ہے اورنہ ہی سول حکومتوں کی اورنہ ہی میڈیا کی ۔ اس لیے باوجود بے شمار قربانیاں دینے کے اس جنگ کو اب تک ختم نہیں کیاجاسکا ہے اور اس کو مکمل طور پر جیتا بھی نہیں جاسکتا۔ جب تک پوری قوم مل کر اس امریکن فورتھ جنریشن وارکا جواب نہیں دیتی۔فورتھ جنریشن وار بنیادی طور پر ڈس انفارمیشن وار ہوتی ہے اوراس کا جواب سول حکومتیں اور میڈیا کے محب وطن عناصرہی دیتے ہیں۔ پاکستان میںلڑی جانے والی اس جنگ میں سول سیاسی حکومتوں سے کوئی امیدنہیں۔ اس لیے عوام میں سے ہر شخص کو خود اس جنگ میںعملی طور پر حصہ لینا ہوگا۔ اس حملے کا سادہ جواب یہی ہے کہ عوام ہر اس چیز کو رد کردیںجو پاکستان ،نظریہ پاکستان اور دفاع پاکستان یا قومی سلامتی کے اداروںپر حملہ آور ہو ۔" مختصر طور پر میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارے سیاست دان ،میڈیا ، فرقہ پرست اور قوم پرست عناصر ، دشمنوں کے ایجنڈا کی تکمیل کے لیے رات دن ایک کررہے ہیں ۔اکیلی فوج کہاں تک ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرے گی ۔ اللہ ہم سب پاکستانیوںکو اپنے وطن ، اپنی آزادی اور اپنے ایمان کا تحفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
وزیر اعظم ، آرمی چیف اور عوام ہوشیار باش
Feb 27, 2017