قارئین کوئی دور تھا ہر صاحب فکرونظر ملکی وغیرملکی بلکہ ذاتی اور گھریلو سطح پر بھی خوب غورفکر کرتا تھا بلکہ اگر کبھی کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ یا تجربہ جو اس کی زندگی پر غیر معمولی انداز میں اثر انداز ہو اسے وہ صاحب طرز ادیب یا شاعر نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی ذاتی ڈائری میں قلمبند کر لیتا تھا کہ ایک تو اس طرح اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے دوسرے بعداز وفات اگر گھر کے کسی فرد کے ہاتھ وہ ڈائری لگ جائے تو کم از کم چند چشم کشا واقعات وحالات یا واردات قلبی سے وہ کچھ سبق سیکھ سکے اس کے برعکس آج کا دور اس قدر پرانتشار ہے روحانی سکون عنقا اور ہر سطح پر افراتفری نقطہ عروج پر ہے کہ خال خال ہی کسی درد مند کو اپنا حال دل قلمبند کرنے کے لئے قلم کاغذ اٹھانے کی فرصت ملتی ہے سوائے ان چند حساس لوگوں کے جن کا لکھنا ان کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ خود ہمارا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ جن کے لئے اپنے اندر کی باتیں لکھنا اس حد تک ناگزیر ہے کہ اس تشنگی کو نہ تو ہماری ڈیڑھ درجن شائع شدہ کتابیں بجھا سکی ہیں نہ ہی سینکڑوں کالم آسودہ کر سکے ہیں بے شک سوچ کی نوعیت کسی عنوان کی پابند نہیں ہوتی تاہم اسے اس کی اصلی اور کھری صورت میں لکھنا ہی بہرطور ضروری ہوتا ہے دوسرے لکھاریوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم ہمارے اپنے لئے یہ طے ہے بلکہ ہمارے اندر کی یہ انتہائی خوبصورت اور ایماندار مجبوری ہے کہ جب کبھی روحانی روشنی سے منور کوئی سوچ، کوئی ایمان افروز گہری اور دوررس یا دل ودماغ کو اپنی گرفت میں لیتی ہے تو ہم اسے فوراً الفاظ کی گرفت میں لے آتے ہیں ہماری جو ہماری سہیلی ہے، ہماری ساتھی ہے ہم جولی ہے ہمارے اندر کا سارا حسن اپنے دل میں اتار لیتی ہے چنانچہ آئیے آج کچھ ایسی ہی فکر انگیز باتیں اپنی ڈائری سے آپ کو سناتے ہیں ہم بات کریں گے فرض کے لینے کی بدعت کے حوالے سے قارئین تک ہم اپنے مفاد کی خاطر مفروضے فرض کرتے رہیں گے۔ انسان کی زندگی میں زیادہ تر مسائل، مصائب اور دکھ پریشانیاں محض فرض کرنے اور کرتے رہنے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی چونکہ ہر انسان چاہے جتنا پڑھا لکھا ہو پھر بھی فکری سطح پر انتہائی ناقص مخلوق ہے لہٰذا وہ حقیقت پسند نہیں ہے اس لئے حق کو فرض نہیں کر سکتا نہ ہی سچائی کو فرض کرنے کے لئے محنت اور جدوجہد کرتا ہے بلکہ وہ خود کو خود ہی گناہ اور ثواب کی سہولت دینے کی خاطر مفروضوں کو فرض کر لینے اور بہانے حیلے گھڑ کر اس میں الجھے لگ گیا ہے جب تک (ہم سمجھتے) ہیں وہ اس الجھن سے نہیں نکلے گا تب تک وہ اپنے لئے راست لائن یا منزل کا تعین نہیں کر سکے گا اور جب منزل کا تعین ہی نہیں ہو گا تو ظاہر ہے اس کا تمام سفر ہی بے سودوبے سمت اور رائیگاں رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی تمام برائیاں فرض کر لینے ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔
دراصل فرض کر لینا ہماری اس ذہنی تیاری کا نام ہے جو ہم کسی بھی برائی کو کرنے سے پہلے کرتے ہیں یعنی گناہ کر لینے سے پہلے انسان خود ہی سے فرض کر لیتا ہے بلکہ تقریباً طے کر لیتا ہے کہ خدا اسے نہیں دیکھ رہا ہے یا اگر کسی کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچاتا ہے تو سوچ لیتا ہے کہ خدا اس کے اس عمل سے بے خبر ہے اور نہ ہی مضروب کو تکلیف ہو رہی ہے۔ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر حسد یا انتقام کی کوئی بات بھی کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ عملی طور پر بھی اگر انتقام لے رہا ہوتا ہے تو فرض کر لیتا ہے کہ تپش مدمقابل تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ شراب پیتا ہے تو سمجھتا ہے نشے کا شیشہ صرف اس کی آنکھوں پر نہیں چڑھا ہوا بلکہ پوری دنیا کی آنکھوں پر بھی چڑھ گیا ہے لہٰذا وہ اس کو نہیں دیکھ رہی ہے بلکہ اگر وہ خود بے خود ہے تو دنیا جہان بھی بے ضرر ہے۔ لیکن دراصل یہ سب بدی، برائی اور گناہ کے جواز کے مروضے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا نہ ہی ہو سکتا ہے بلکہ فرض کرنے والا خود کو خود ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالی ہر لمحہ حاضروناظر ہے۔ محض آپ کے فرض کر لینے سے ٹھوس حقائق کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی ان کے ٹھوس پن کو آپ کے فرض کر لینے کا گناہ ختم کر سکتا ہے لہٰذا کوشش کیجئے عملاً کوئی بھی غلط کام کرکے خود کو اس کے ضرررساں ہونے کی ذمہ داری سے بری نہ سمجھئے بلکہ زندگی کو پوری ایمانداری سے برتیئے۔