بھٹو دور میں ملک غلام مصطفی کھر بڑے دبنگ گورنر پنجاب تھے ان کے دور میں پولیس والوں نے ہڑتال کی تو انہوں نے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے انہیں برطرفی کی وارننگ دے کر ڈیوٹی پر حاضر کیا لیکن موجودہ دور میں عجب طرفہ تماشا دیکھنے میں آیا کہ خادم اعلی پنجاب کے محبوب بیورو کریٹ احد چیمہ کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر محبت نے جوش مارا اور ساتھی بیورو کریٹس نے سیکرٹریٹ میں تالے ڈال دیئے۔ پنجاب کابینہ نے احد چیمہ سے اظہار یکجہتی کیا احد چیمہ کی گرفتاری نے ان کا درجہ بلند کر دیا وہ 19 سے 20 گریڈ کے افسر ہو گئے وہ شروع ہی سے خوش قسمت ہے گریڈ 18 میں تھے تو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ہو کر گریڈ20 کے پرنسپلوں کو بلا کر کھڑا رکھتے وہ سر جھکائے سر، سر کہتے۔ بلوچستان میں کتنے لوگ پکڑے گئے وہاں کے سیکرٹریٹ پر کسی کو تالے ڈالنے کی جرات نہ ہوئی۔ بھٹو دور میں آغا شاہی نے ان سے بیزاری کے بعد استعفی دینے کا فیصلہ کیا تو بھٹو نے لازمی سروس کے تحت انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ کوئی سرکاری ملازم ریاستی اداروں اور ریاست کے خلاف ہڑتال نہیں کر سکتا۔ کیا یہ ریاست سے تنخواہ نہیں لیتے احد چیمہ کی گرفتاری سے وہ بیورو کریٹس پریشان ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں نیب کے دفاتر اور رینجرز کے حصار میں کام کر رہے ہیں۔ احد چیمہ کا لیپ ٹاپ بھی نیب کی تحویل میں آ چکا ہے جس میں معلومات کا حیران کن ذخیرہ ہے۔
اب سچ مچ ہر منصوبے کا پنڈروا بکس کھلنے جا رہا ہے۔ احد چیمہ کی نشاندہی پر آشیانہ سکیم میں 14 ارب کا ٹھیکہ لینے والا شاہد شفیق گرفتار ہو چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دھیلے کی کرپشن تو نیب کا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ اب تو دھیلے سے ایک نان کلچہ بھی نہیں آتا نیب اور جے آئی ٹی تو اربوں سے کم کرپشن پر ہاتھ ہی نہیں ڈالتی۔ سرکاری افسروں کی ہڑتال خوفناک روایت ہے۔ اس طرح تو کوئی چور پکڑا جائے تو چور بھی ہڑتال کریں گے۔ والدین ڈانٹ پلا دیں تو کیا بچے بھی ہڑتال پر جائیں گے۔ کلاس میں ٹیچر سرزنش شروع کر دے تو طالب علم ہڑتال کا اعلان کریں گے۔ مجرموں کو سزا سنائی جائے گی تو کیا وہ یہ واویلا کریں گے کہ انہیں جیل کیوں بھیجا گیا، ایک ملزم کی گرفتاری پر ایسا ردعمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھٹو سے بڑا کون سا سیاست دان تھا اس کے لئے احتجاج اور خودسوزیوں کی سمجھ تو آتی تھی کیا کوئی بیورو کریٹ ملک اور عوام کے لئے ناگزیر ہوتا ہے کیا بڑے سے بڑے آدمی کے چلے جانے سے نظام رک جاتا ہے؟ اگر احتجاج کا یہی طریقہ اپنایا گیا تو ہر کوئی اپنے ساتھی اور گروہ کے لئے اٹھ کھڑا ہو گا۔ 9 برس عوام کی خدمت کے لئے خون پسینہ بہانے والوں کو کوئی خوف اور غم ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں انشااللہ وزیراعظم کا خطاب تو مل چکا ہے۔ دھمکی یا احتجاج سے نیب پسپائی اختیار نہیں کرے گی۔ خون اور پسینہ بہانے والے یقیناً شہید کا درجہ رکھتے ہیں اب سڑکوں پر بینروں سے رہائی ممکن نہیں ہوتی۔
تین ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی جیت کو بھی 28 جولائی کے بعد بطور سربراہ مسلم لیگ نوازشریف کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینے کی روشنی میں تولنے اور مانجنے کا پروگرام ہے۔ ن لیگ کے نوازشریف اور راجہ ظفرالحق کے منظور شدہ امیدوار اب بطور آزاد امیدوار سینٹ کا الیکشن لڑیں گے۔ مدعی اور منصف کبھی ایک بنچ پر نہیں ہوئے مدعی آئین اور قانون کی بات کرتا ہے جب کہ مدعی آئین اور قانون کی تعبیر اپنی سوچ فکر اور مفاد سے جوڑتا ہے مریم نواز کا بیانیہ والد گرامی کی محبت میں گرفتار بیٹی کا بیانیہ ہے منصف اس بیانیے کو ماننے کے پابند نہیں منصف کسی رشتے سے نہیں آئین اور قانون کی کتابوں سے محبت ہوتی ہے اسے 20 کلو سونے کا تاج پہننے کی خواہش نہیں ہوتی اس کے فیصلوں کی نظیر رہتی دنیا تک دی جاتی ہے۔ رشتہ داری میںدیئے گئے بیانیے سے وقت بدلنے سے بدل جاتے ہیں افسوس کی بات ہے کہ انتخابات سے پہلے غیر یقینی کی فضا بڑھتی جا رہی ہے۔ نواز شریف اور عدلیہ دونوں ہی غلطیوں سے مبرا نہیں لیکن تاریخ کی غلطیوں کو کون درست کرے گا؟ جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے آنے پر نہ آئین نہ پارلیمنٹ نہ عدلیہ عوام کے کام آ سکی۔ ان ادوار میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف آئین سے بالاتر رہے آمروں، غاصبوں اور طالع آزمائوں کے گرد فرشتے جمع نہیں ہوتے تھے موقع اور مفاد پرست سیاستدان ہی ان کی مدح سرائی کرتے تھے۔ میڈیا میں جو ان کے قیصدہ خواں ہوتے تھے ن لیگ اور اس کے قائدین آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں سپریم کورٹ سے دو بار نااہلی اعصاب کو شل کرنے کے لئے کافی ہے مریم نواز کی دلیری اور بے خوفی ڈھارس بندھا رہی ہے۔ مریم کی للکار ایوان ہائے عدل میں بھی سنی جا رہی ہے کہ منصف بنو، مدعی یا حکمران نہیں، نواز شریف پارٹی صدر رہیں گے، اگلے (چوتھی بار) وزیراعظم بھی ہوں گے اس للکار نے تو انشااللہ وزیراعظم کا راستہ روک دیا ہے۔ بیٹی پہلے باپ او پھر چاچے کا ساتھ دیتی ہے میزان میں باپ اور چاچے کا وزن ایک جیسا نہیں ہوتا۔ نواز شریف کی بطور صدر مسلم لیگ ن کے بعد 28 جولائی کے بعد کئے گئے ان کے فیصلے سپریم کورٹ نے بے اثر کر دیئے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ راتوں کو شب خون مارنے والے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ فیصلوں کو کسی نے کالعدم قرار نہیں دیا۔ 62، 63 کے تحت نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دیئے گئے۔ جنرل ضیا کا قانون انہی کے لاڈلے کو کہا گیا لیکن نااہلی کو غیر موثر بنانے کے لئے آئینی ترمیم کا خاکہ تیار ہے۔ آئین بھی ایسی قمیض بنتا جا رہا ہے جس میں جا بجا ترامیم کے پیوند دکھائی دے رہے ہیں۔ 62، 63 کو جنرل ضیا نے آئین میں داخل کیا تھا۔ پارٹی صدارت سے نااہلی کے بعد سینٹ کے انتخابات کے بارے میں بھی قطعیت سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ نگران حکومت 4 جون کو سامنے آئے گی جس کے لئے پس پردہ قوتیں سرجوڑ کر بیٹھی ہیں 4 جون سے پہلے پہلے جھاڑو پھرنے جا رہی ہے۔ وزیراعظم بھٹو کے ساتھ کیا نہیں ہوا تھا اس زمانے کی عدلیہ اور طالع آزما ایک پیج پر تھے کہ بھٹو اور بھٹو ازم کا پیج اکھاڑ پھینکا جائے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو آج بھی جیالوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی ’’جئے بھٹو‘‘ کی سیاست کر رہے ہیں کسی آمر کی قبر پر اس کے مداحوں اور جیالوں کے قافلے حاضری کے لئے کیوں نہیں روانہ ہوتے بھٹو اور بے نظیر اور نواز شریف اور مریم نواز سے موزانہ درست نہیں لیکن دور حاضر میں نواز شریف کے مقابل کسی کو بھی کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے ستونوں میں دراڑیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ 1977 اور 1999 کی فوجی بغاوتیں ابھی سب کو یاد ہیں بغاوت کے زلزلے کو نہ کوئی آئین روک پاتا ہے نہ پارلیمنٹ نہ عدلیہ دور حاضر میں بھی زلزلے کے ہلکے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں لیکن زلزلے کے اصل مرکز کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ’’کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ لوہار اور سنار کا کوئی مقابلہ نہیں۔ نیب اور بیورو کریسی میں جنگ چھڑ چکی ہے۔ پنجاب میں بیورو کریسی تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ نیب کا افسر شاہی کے گرد گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے۔ سندھ میں بھی بیورو کریسی پر ہاتھ ڈلنے جا رہا ہے جنہیں نوکری عزیز ہے وہ کسی بھی صورت میں احتجاج میں شریک ہو کر نوکری نہیں گنوائیں گے وہ ’’اُدھر کو چُلو جدھر کی ہوا ہُو‘‘ والے مقولے پر عمل کریںگے۔ بادمخالف کے ساتھ کوئی نہیں چلتا۔ لفظوں کی جنگ کوئی کب تک لڑے گا آخر لائوڈسپیکر پر پابندی لگ جائے گی۔