اختیارات بھی نشہ ہے۔ نشہ ’’بندہ کبندہ‘‘ بھی نہیں دیکھتا۔ جونہ جرنیل دیکھتا ہے نہ جج ، نہ وزیر نہ مشیر، حتی کہ محمود اور ایاز بھی نہیں دیکھتا۔ ایسی نشیلی صورت حال عوام اور مملکت کیلئے کبھی سودمند نہیں ہوتی۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ملک کے عوام کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنی محرومی کے خاتمے کی خاطر کسی ایک کے ساتھ لگ جاتے جس سے ان کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، وہ ایک مخصوص دھڑے کا ساتھ دیتے ہیں ایک دوسرے دھڑے کے خلاف ، بیشک ان کا اپنا دھڑا بھی خراب ہی کیوں نہ ہو! دھڑے بندی بھی فیشن ہے اور اختیارات سے تجاوز کرنا اس سے بھی بڑا فیشن۔ ایسے فیشن کہ جو انصاف کا مائنس فارمولا ہوا کرتے ہیں اور ملک و ملت کیلئے مضر صحت ہھی!
چشم بینا گواہ ہے کہ اپنے شہر اور گاؤں میں سرد خانہ جنگی عروج پر ہے، اور راوی چین ثابت کرنے کے درپے ہے۔ اداروں کے مابین سوتیلے پن کی داستانیں رقم ہورہی ہیں اور ارباب اختیار سے احباب سیاست کے سبھی طبقے تپے ہوئے تندور پر اپنی روٹی سینکنے کے چکر میں ہیں۔ قوم کو "گرے لسٹ" میں شمولیت کا اتنا فکر نہیں جتنا ایک بیوروکریٹ کے "گرے ایریا" میں جانے کا فکر ہے۔ چلو پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے والوں سے قبل تھوڑا سا جائزہ پاکستانیوں کو گرے لسٹ میں ڈالنے والوں کا ہوجائے۔ میرے خیال میں ایک مخصوص تناظر میں بیوروکریٹس کی 3 اقسام ہوتی ہیں: (1) سول سرونٹ کم پرائیویٹ سرونٹس۔ (2) نیم سرکاری سرونٹس۔ اور (3) نیچرل سرکاری سرونٹس۔ پہلی قسم یعنی سول سرونٹ کم پرائیویٹ سرونٹس اپنے اور اپنے پسندیدہ عناصر کیلئے اس قدر پروفیشنل ہوتے ہیں کہ، شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی منزلوں کو جا چھوتے ہیں۔ نیم سرکاری پبلک سرونٹ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہوتے ہیں۔ گویا ففٹی ففٹی۔ لیکن یہ
پہلی نسبت سے کم خطرناک ہونے کے سبب مقام اعراف پر ہوتے ہیں تاہم نیچرل سول سرونٹ قوم کا انمول اثاثہ ہوا کرتے ہیں جن کا دل قوم کے لئے دھڑکتا ہے تخت و تاج یا حرص و ہوس اور مال و متاع کے لئے نہیں۔ ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ، کیا عام پاکستانی کے لئے قانون اور قاعدہ اور جبکہ کسی بیوروکریٹ یا لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک سابق ڈی جی کے لئے مختلف ہے؟ تو کیا ہوا دیکھیں اور سیکھیں یہ بیوروکریٹس کہ، جن کی کمزوریوں، کوتاہیوں اور تساہل پسندیوں کے سبب روزانہ ہزاروں شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی تفتیش اور ناکردہ جرائم کی سزاؤں کا سامنا ہوتا ہے۔ اب فکر اور ہنگامہ کس بات کا اگر مذکور بے گناہ ہیں تو چھوٹ جائیں گے، اور گنہگار ہیں تو پھر فکر کی ضرورت ہی کیا۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے رہنمااور سابق ممبر قومی اسمبلی چوہدری منظور نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ بیورو کریٹ اس قدر اہم ہے اور اس کی گرفتاری اس قدر حساس معاملہ ہے کہ کسی ریکارڈ کی طرح جلا کر کوئی اس کا بھی خاتمہ نہ کردے۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیدھی سی بات ہے جب بلوچستان میں سیکرٹری خزانہ کی گرفتاری ہوئی یا سندھ میں افسران کو ہاتھ پڑتا تو اس وقت کے بغلیں بجانے والے آج سیخ پا کیوں ہیں؟
ہم اپنی سیاسی بقا اور داخلی بھلے کی خاطر خارجی امور کو بھولے رہے۔ ایسے جیسے خارجی محاذ بھی ہمارے وہ بیوروکریٹ لڑ لیں گے جنہیں ہم 20ویں گریڈ کی سیٹ دے دیتے ہیں جن کا اپنا سکیل ابھی 18واں ہوتا ہے۔ یہ مہربانی ان آفیسرز پر کرتے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونا پسند فرمائیں اور حکمرانوں کے اعمال پر پردہ ڈالے رکھیں۔ لیکن یہ سب چکر مکر داخلی محاذوں پر تو کسی حد تک ممکن ہیں مگر خارجی چیلنجوں میں بیگانے پُتر پردے نہیں ڈالنے دیتے۔ وہاں مربوط اور مضبوط وزارت خارجہ اور ان کے اہلکاروں کا ہوم ورک درکار ہوتا ہے۔ جب عرصہ دراز تک آپ وزیر خارجہ ہی نہ بنائیں تو عالمی سطح پر خمیازے تو بھگتنے پڑتے ہیں!
ہاں یہ بھی ذہن نشیں رہے ، اختیارات سے تجاوز صرف میرے گاؤں اور شہر ہی میں نہیں ہوتا اس کی کھلی کھلی پریکٹس گلوبل ویلج میں بھی ہے۔ کبھی امریکہ اور روس جہاں دل کرتا ہے وہاں تجاوزات کو جائز تجاوزات قرار دے دیتے اور جس کو جی چاہتا اپنا مخالف قرار دے کر تہہ تیغ کردیتے ہیں۔ ان دونوں کے ہاں دھڑے بندی اور اختیارات کے تجاوزات کا فیشن تھا جس کے سبب عالمی برادری کا امن تباہ رہا۔ کبھی انہوں نے ایران و عراق کو مدمقابل رکھا اور کبھی افغانستان کو تختہ مشق بناتے رہے، کوئی پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا رہا اور کوئی بھارت سے گٹھ جوڑ میں لگا رہا۔ یوں زمانہ کٹتا اور مرتا رہا مگر یہ اپنی چودھراہٹ اور اسلحہ فروشی میں مگن رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس تو ایک دفعہ ماسکو ہی میں زمین بوس ہونے کے تجربے سے گزر چکا ہے تاہم امریکہ نے اس سے سیکھنے کے بجائے بڑا بدمست ہاتھی بننے کی ضرورت محسوس کی ہے جو ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔ سب باتیں اپنی جگہ لیکن کوئی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو بتائے کہ، پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان تو عالمی امن کی خاطر عرصے سے اپنا سینہ چھلنی کرا رہا ہے!۔
امریکہ کی تابعداری اور دوستی میں ہم اپنی حدود سے تجاوز کرتے رہے، اُس کے لئے سدا مرتے رہے اور اس نے اپنے یورپی اتحادیوں سے مل کر ایک قراردادپیش کردی کہ پاکستان کو ان ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کریں جو دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والوں پر کڑی نظر نہیں رکھتے۔ اور ان کی مالی معاونت روکنے سے قاصر ہیں۔ اس لسٹ سے فی الحال تین ماہ کے لئے بچ گئے گویا بلیک لسٹ سے تو بچ گئے مگر گرے لسٹ میں شامل ضرور کردیا گیا۔ اس ضمن میں واچ کرنے والی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) وہ بین الحکومتی ادارہ ہے جو 1989 میں بنا۔ اسے G 7 ممالک کی ایما پر بنایا گیا کہ کوئی کالے دھن اور دہشت گردی کا نوٹس لے۔ یہ ادارہ کسی ملک پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں رکھتا تاہم کسی ملک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے عالمی برادری کو یہ گرے اور بلیک کیٹگریز میں وضع کرتے ہیں.
ایف اے ٹی ایف کی ریسرچ اپنی جگہ لیکن ایک چھوٹا سا سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس نے جرمن مصنف ڈیوڈ سن کی کتاب "بیٹریل آف انڈیا" کے انکشافات پڑھے ہیں کہ 2008 میں ممبئی حملوں میں کیا ڈرامہ رچایا گیا؟ بمطابق رائٹر کس طرح دوسرا نائن الیون متشکل کیا گیا؟ اور پاکستان کو کس طرح خواہ مخواہ بدنام کیا گیا؟ پھر کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلے کو عالمی طاقتوں نے جس طرح فراموش کرکے خطے ہی کا امن نہیں پوری دنیا کا امن داؤ پر لگا رکھا ہے، نہ امریکہ اس امن کے لئے مخلص، نہ اقوام متحدہ کوشاں پھر کون یہ سمجھے کہ عالمی دانشور واقعی غیر جانبدار ہیں؟ ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں!
اللہ بھلا کرے ترکی کا کہ جس نے ٹھوک بجا کر پاکستان کی حمایت کی۔ بلیک لسٹ میں ڈالنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ سبھی ممالک سو فی صد آپ کے خلاف جائیں۔ اس تنظیم کے 35 اراکین ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہماری حکومت اور سابق وزیراعظم ہی اندرونی سیاست اور خدشات میں ایسے جکڑے رہے کہ سفارتی اور خارجی چیلنجوں پر توجہ ہی نہ دی۔ سابق وزیراعظم کا آخری دفعہ پالا اس چیلنج سے 2015 میں پڑا جب سابق امریکی صدر اوباما سے ملاقات پر یہ معاملہ گفت وشنید میں آیا۔ افسوس کہ ہم نے ایزی لیا۔ 2015 میں وارننگ دو دفعہ ملی جسے نظرانداز کیا گیا پھر امریکی صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس پر بھی ہم اس طرح متحرک نہ ہوئے جس طرح ہونا بنتا تھا۔ اب تو خطرہ بہرحال ٹل گیا اور اس لسٹ پر ہر تین سال بعد غور ہوتا ہے آگے ہی سمجھ اور سوچ لیا جائے۔ گرے لسٹ میں بھی آخر کب تک اور کیوں؟
اس وارننگ یا گرے لسٹ کا بھی نقصان ہے۔ جگ ہنسائی اپنی جگہ عالمی سفارتکاری، بنکنگ سیکٹر، کاروباری لین دین اور بحالی اعتماد بڑی طرح متاثر ہوتے ہیں جو ملک و ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ گرنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایس اینڈ پی، موڈیز اور فیچ کی طرف سے ریٹنگ گرنے پر نئے قرضوں کا مارک اپ رشک کی بنیاد پر مزید بڑھے گا۔ اس سال جولائی میں نیپال میں ایشیا پیسفک گروپ کے اجلاس کے حوالے سے بھی تگ و دو کرنی پڑے گی۔ لگتا یوں ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ دعوٰی کہ آئندہ آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے وہ پورا نہیں ہوگا اور اگلے الیکشن کے بعد فوری قرضوں کی ضرورت پڑے گی!!!
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس تو پھر ایک مستند عالمی ادارہ ہے جبکہ کسی ہوا اور ساکھ کا عالم تو یہاں تک ہوتا ہے کہ، محض ایک امریکی ماڈل و اداکارہ کایلی جینر کے 18 الفاظ پر مشتمل ٹوئیٹ نے ایک سوشل شیئرنگ ایپ "سنیپ شاٹ" کو 1 کھرب 30 ارب روپے کا جھٹکا دے دیا کہ، میں نے اس ایپ کو استعمال کرنا ترک کردیا جبکہ اس امر سے فیس بک کو 13 کھرب روپے کا فائدہ ہوگیا! ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کی ساکھ بنانے اور بحال کرنے کیلئے اداروں کو مضبوط، آئین کو مقدم اور ڈرٹی پالیٹکس کو ترک کرنا پڑے گا۔ امت مسلمہ کو ترکی کی ڈگر اور ٹرمپ کو عالمی انصاف کی شاہراہ پر چلنا ہوگا ورنہ گلوبل ویلج امن کے حصول اور انسان انسانیت کے معراج کو نہیں چھو سکتا۔ گرے لسٹ اور ڈارک لسٹ کا تعین کرنے والے خود امریکہ، بھارت اور اسرائیل کو دیکھیں کہ ان کا اپنا "مقام" کیا کہتا ہے؟ ہاں! ہمیں بھی "داخلی تجاوزات" اور "خارجی ناخارجیات" کا دیانتداری سے جائزہ لینا ہوگا اگر ہم ضمیری دنیا کے زندوں میں ہیں !!!