لاہور (اپنے نامہ نگار سے)لاہور میں دوروزہ ایشیا پیسیفک ماحولیاتی انصاف کانفرنس شروع ہو گئی ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی نے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی خطے کا سب سے اہم ترین مسئلہ ہے،حکومت اور متعلقہ اداروں کو مضبوط بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ماحولیاتی ضابطہ کار کا اطلاق کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور انسانی توقیر کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ جسٹس یاور علی نے کہا کہ وہ کانفرنس کے انعقاد پر ایشیا پیسیفک کے ججز اور قانونی ماہرین کو مبارک باد دیتے ہیں۔ کانفرنس اس بات کا مظہر ہے کہ ساﺅتھ ایشین ریجن کے ججز موسمیاتی تبدیلی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ آئین انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور ان حقوق میں صاف ستھرا ماحول بھی شامل ہے جو زندہ رہنے کا بنیادی جُز ہے۔ ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں ۔ بھوربن ڈکلیریشن پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کیلئے سنگ میل ثابت ہوا۔ اس وقت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں گرین بنچز قائم ہیں۔ سپریم کورٹ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بہت متحرک ہے اور متعدد ایسے معاملات پر سوموٹونوٹس بھی لئے گئے ہیں۔ جن میں سے لاہور میں سگنل فری کوریڈور پر لئے سوموٹو نوٹس میں جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کرے جو ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی معاونت کرے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اعلی عدلیہ کے آئینی، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے مابین تعلق پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان کے ججز نے موسمیاتی انصاف اور ماحولیاتی حقوق کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہونے والے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں میں سموگ کے حوالے سے ایک کیس سامنے آیا جس میں عدالت نے قرار دیا کہ لوگوں کو سخت پریشانی کے باوجود حکومت اس صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہی لیکن عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کو ہر صورت تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ صرف قوانین کا بنانا ہی کافی نہیں تاوقتیکہ ان قوانین کو بغیر کسی خوف لالچ اور طمع کے نافذ نہ کیا جائے۔ شہریوں اور غیر سرکاری تنظیموں کا مرکزی کردار ہے جو عدالتوں میں ایسے مقدمات لاتے ہیں۔ ماحولیاتی مقدمات کے لئے عدالتوں کی استعداد کار کو بڑھایا جارہا ہے، انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ اور وکلا برداری ماحولیاتی تحفظ کیلئے کوشاں رہے گی۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ ہمارے فیصلے ناصرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح اپنا اثر رکھتے ہیں۔
جسٹس یاور