کتنے بھارتی تھے،130،لیکن کیوں،احسان مانی کو کون پوچھے گا؟؟؟؟

Feb 27, 2020

محمد اکرم چوہدری

ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہمیں بھارت سے مار پڑتی ہے اور ہم پھر بھی ان کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں۔ وہ ہمیں اندرونی و بیرونی طور پر کمزور و بے بس کرنے میں وسائل جھونک رہا ہے لیکن ہم انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ اس کی تازہ مثال ہے احسان مانی اینڈ کمپنی نے پاکستان سپر لیگ کے اہم معاملات جس طرح بھارتیوں کو شامل کیا وہ سوالیہ نشان ہے۔ اب تک وزیراعظم پاکستان کی طرف سے کسی قسم کا ایکشن نہ لینے ہر دردمند تکلیف میں ہے۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
کرکٹ بورڈ نے سپر لیگ کے لیے کم و بیش ایک سو تیس بھارتیوں کی خدمات حاصل کی ہیں اور افتتاحی تقریب کی ڈائریکٹر کو بھی دشمن ہمسایہ ملک سے بلایا تھا۔ یہ سب کچھ اس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جس کے سربراہ دنیا کے سامنے بھارتیوں کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہیں، وہ دنیا کے سامنے مودی کو ہٹلر کہتے ہیں، وہ اپنی تقاریر میں ہندو توا اور بھارت کی انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ اس وزیراعظم کے دور میں ہو رہا ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے۔ یہ اس وزیراعظم کے دور میں ہو رہا ہے جنہیں اپنے نوجوان سب سے اچھے نظر آتے ہیں لیکن وزیراعظم جس ادارے کے پیٹرن وہی ادارہ بھارتیوں کو نوازنے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ کیا وزیراعظم عمران خان احسان مانی کو نہیں پوچھ سکتے کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ بھارت سے اتنی بڑی تعداد میں پاکستان لایا گیا ہے اس سے بھی تکلیف دہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ وہ وضاحت ہے جس میں بھارتیوں کی پاکستان آمد کی بے تکی دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کہتا ہے کہ کسی بھی افتتاحی تقریب کے اہتمام کے دوران چند چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ اس دوران جہاں کچھ مداحوں نے افتتاحی تقریب میں شامل چند عناصر کو نامنظور کیا تو وہیں ایک بڑی تعداد نے تقریب کو سراہا ہے۔ایک ذمہ دارانہ ادارے کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ مستقبل میں اپنی خامیوں سے سیکھنے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔
جہاں تک لوگوں کی شہریت کا معاملہ ہے تو پی سی بی واضح کرنا چاہتا ہے کہ ایونٹ کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ممالک، خطوں اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد کام کررہے ہیں۔ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی براڈکاسٹ کے لیے مقامی ذرائع دستیاب نہیں ہیں اور اس حوالے سے پی سی بی نے ٹاور اسپورٹس اور اسپورٹس ورکس کی مشترکہ شراکت داری سے معاہدہ کررکھا ہے۔
کہیں مایوسی ضرور ہوگی مگر ایک بات واضح ہے کہ پاکستان سپر لیگ اس ملک کی لیگ ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ ایونٹ کے تمام میچز پاکستان کے چار مختلف شہروں میں کھیلے جارہے ہیں۔
پی سی بی کی یہ وضاحت ڈھٹائی سے بھرپور ہے۔ اعلیٰ معیار کی براڈ کاسٹ کیا صرف بھارت تک محدود ہے، کیا دنیا میں اس سے بہتر براڈ کاسٹ کہیں سے نہیں ہو سکتی، جس طرح کی براڈ کاسٹ یہاں ہو رہی ہے یہ تو اپنے لوگ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر غلطیاں ہی کرنی ہیں تو اپنے لوگوں کی غلطیاں برداشت کرنے میں کیا حرج ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلتا کیا ہماری کرکٹ ختم ہو گئی ہے، بھارت نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا کیا ہم تنہا ہو گئے ہیں، بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کا گھناؤنا کھیل جاری رکھا، کیا پاکستان سے کھیل ختم ہو گئے، ہزاروں پاکستانیوں نے بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور احسان مانی یہ کہہ رہے ہیں کہ براڈ کاسٹ کی اعلی کوالٹی کے لیے مختلف ممالک اور خطوں کے لوگوں کو شامل کرنا ہوتا ہے تو وہ سوائے بھارت کے ساری دنیا سے پیشہ ور اکٹھے کر لیتے انہیں کس نے روکا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ جو راتوں رات معاہدے تبدیل ہوتے ہیں، کسی کو نکال باہر کیا جاتا ہے اور کسی کو شامل کیا جاتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہو۔ کہیں کسی کو نوازا تو نہیں جا رہا۔
کرکٹ بورڈ جب یہ کہتا ہے کہ افتتاحی تقریب میں شامل کچھ مداحوں نے چند عناصر کو نامنظور کیا ہے یہ لکھتے ہوئے کچھ مداحوں کی تعداد لکھ دی جاتی تاکہ معلوم ہوتا کہ کن چھ سات آٹھ نو افراد نے بھارتی ڈائریکٹر کی نگرانی میں ہونے والی اس بدترین افتتاحی تقریب کو ناپسند کیا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیا کو یہ لکھتے ہوئے ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ واقعی ناپسند کرنے والے مداح" کچھ" تھے۔ یقیناً بورڈ ایسی ہی یکطرفہ کوریج اخبارات اور ٹی وی چینلز سے بھی چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا کردار محدود کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کیا سیکھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے یہ سب دیکھا جا رہا ہے ان کارروائیوں کی نگرانی بھی ہو رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کارروائیوں پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ اگر وزیراعظم اس حوالے سے خاموش رہیں گے تو پاکستان کے غیور اور بہادر عوام قطعاً خاموش نہیں رہیں گے۔ احسان مانی اینڈ کمپنی حساب کتاب اور دنیا سے بیخبر ہیں تو انہیں چاہیے ماہانہ لاکھوں تنخواہ لینے والے اپنے ڈائریکٹر میڈیا سے بھارت کی طرف سے پاکستان کرکٹ کو نقصان پہنچانے والی کارروائیوں کی تفصیلات طلب کریں اور پھر دو قومی نظریے کی طرف دیکھیں پھر کشمیر میں ہونے والے مظالم کا مطالعہ کریں، وہاں کرفیو اور لاک ڈاون میں جو ظلم و بربریت کی گئی ہے اس کو پڑھیں اور آخر میں بھارت میں شہریت بل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور پھر مساجد پر ہونے والے حملوں کو دیکھیں پھر بھی سمجھ نہ آئے تو عہدہ چھوڑیں اور جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس چلے جائیں۔ جو ہزاروں، لاکھوں ناپسند کرنے والوں کو کچھ مداح لکھ سکتے ہیں ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
کرکٹ بورڈ کی طرف سے بھارتیوں کو پی ایس ایل کے لیے پاکستان بلانا اور پھر اس غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے جھوٹی دلیلیں دینا ناقابل معافی ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ میں کوئی پاکستانی نہیں ہے، بھارت پاکستان میں شیڈول ایشیا کپ بھی نہیں کھیلنا چاہتا، وہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ کھیل رہا ہے ان حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا بھارت کی طرف جھکاؤ شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ بھارت میں مساجد پر حملے ہو رہے ہیں اور احسان مانی کو انکی پیشہ وارانہ مہارت کی دلیلیں سوجھ رہی ہیں۔ کرکٹ بورڈ کی اس مجرمانہ حرکت پر وزیراعظم عمران خان کو ایکشن لینا چاہیے۔ ہمارا بورڈ کیوں بار بار بھارتیوں کی طرف جھکتا ہے۔ انہیں اپنی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونا اچھا نہیں لگتا اور دشمن ملک کے لوگوں کو پاکستان بلا کر انہیں کوئی خیال نہیں آتا ایسے لوگوں کی اتنے بڑے عہدوں پر کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بورڈ کا یہ عمل شہداء کے خون سے غداری، قومی وقار اور غیرت کے منافی ہے۔ صوبائج و قومی اسمبلیوں میں اس حوالے ضرور بات ہونی چاہیے۔

مزیدخبریں