سائنسدانوں کا لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے ہیرے بنانے کا دعوٰی

 سائنسدانوں میں لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے ہیرا بنانے کا دعوی کیا ہے جس میں خام تیل اور گیس میں موجود مالیکیول کو استعمال کیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک کی جانے والی تحقیق میں قدرتی ہیرے زمین کی سینکڑوں کلومیٹر نیچے گہرائی میں تشکیل پاتے ہیں جہاں لاکھوں ٹن دباو اور غیرمعمولی درجہ حرارت ہوتا ہے۔ اس کیمیائی عمل کے دوران کاربن کرسٹلائز ہوجاتا ہے اور ہیرے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں آتش فشانی عمل سے یہ ہیرے دھیرے دھیرے زمینی سطح کے قریب پہنچتے اور انسان کے ہاتھ لگتے ہیں، یہ عمل لاکھوں سال پر محیط ہوتا ہے۔ہیرے جیسی بیش قیمت چیز اب ماہرین یہی عمل دہرا کر تجربہ گاہ میں حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس دوران مختلف طریقوں سے مصنوعی ہیرے بنائے گئے لیکن اس کے لئے ضروری ماحول پیدا کرنا ایک چیلنج ثابت ہوا ہے۔ تاہم سائنسدانوں نے نوٹ کیا کہ پٹرول کے ایٹم عین اسی طرح ترتیب میں ہیں جس طرح ہیرے کے اندر ہوتے ہیں، باوجود اس اہم انکشاف اس میں ایک خامی تھی کہ روایتی ہیروں کے برخلاف یہ بہت باریک اور خالص کاربن پر مشتمل تھے۔ ان میں ہائیڈروجن بھی موجود تھی۔اسے اپنی ضرورت کے تحت ڈھالنے کیلئے پٹرول کے سفوف کو لیزر سے گرم کر کے مختلف ٹیسٹوں سے گزارا گیا جس سے ہائیڈروجن غائب ہوئی اور مخصوص درجہ حرارت پر یہ ایٹم ایک خاص ترتیب میں آکر ہیرے کی شکل اختیار کرگئے۔ یہ ہیرے ابھی بہت چھوٹے ہیں، ان کو قدرتی ہیروں کی سطح پر لانے کیلئے ابھی مزید وقت درکار ہے۔

ای پیپر دی نیشن