پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
وطن عزیز پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی جیسے ناسور کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے نہ صرف اندرونی طور پر کمزور ہوا بلکہ بین الاقوامی سطح خصوصا خطے میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لیے دشمن ملک بھارت کی ناپاک سازشوں کا بھی مقابلہ کرتا آرہا ہے ملک میں امن کے قیام اور اسے دہشت گردی سے پاک ملک بنانے کے لیے ہمیشہ پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ، پاک فوج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ان تمام تر مشکلات کے باوجود ثابت قدمی اور قومی جذبے سے وطن عزیز کی حفاظت میں جو لازوال قربانیاں دیں انکی بدولت آج پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے ۔ان دہشت گردی کی کاروائیوں میں پاکستان کے ہزاروں معصوم شہری موت کے گھاٹ اترے، اور لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے کروڑوں کی املاک کو نقصان پہنچا،گزشتہ کئی دہائیوں میں آنے والی جمہوری حکومتوں کے سامنے بھی دہشت گردی پر قابو پانا ایک بڑاچیلنج بنارہا ۔پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والی ملک دشمن قوتوں نے ان دہشت گردوں کے ذریعہ ملک کو عدم استحکام کی جانب لے جانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی دہشت گردی کے خلاف پاک فوج نے ویسے تو شروع سے ہی جذبہ حب الوطنی کے تحت کام کیا لیکن دسمبر 2014 میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد پاک فوج کے سا بق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی کمان میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب فیصلہ کن موڑ پر آن پہنچا۔ جس کے بعد فروری 2017میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے کمان سنبھالنے پردہشت گردوں کو اپنے انجام پر پہنچانے کیلئے پاک فوج نے ردالفساد کے نام سے جنگ کا آغاز کیا اوراس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کسی دباؤ،رکاوٹ یا مداخلت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عملی اقدامات جاری رکھے گئے۔۔بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے تمام تر ثبوت سامنے آنے کے باوجود اب تک بین الاقوامی سطح پر دوٹوک موقف سامنے لانے میں کسی حد تک جومصلحت پسندی سے کام لیا جا رہا تھا، پاک فوج نے بالآخربھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرکے کھلے عام اور ٹرائل میں اس سے تمام راز اگلوا کر دنیا بھر میں بھارت کی دہشت گرد کارروائیوں کو بے نقاب کر دیا۔ کلبھوشن کو فوجی عدالت سے موت کی سزا دینے پر پوری قوم نے فوج کے کردار اور انکے فیصلے کو سراہا ۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے سابق آرمی چیف کے عزم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ نئے عزم اور ولولے کے ساتھ دوبارہ سر اٹھانے والے فسادیوں کی سرکوبی کے لیے ردالفساد کے نام سے جہاد شروع کیا اور دہشت گردوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ، ان کے بچے کھچے ٹھکانے تباہ برباد کردیئے گئے اور ان کے سہولت کاروں کے گرد بھی شکنجہ سخت کردیا گیا ، ایسے نا مساعدہ حالات میں فسادیوں کی اکثریت موت کے گھاٹ اتار دی گئی یا ملک سے راہ فرار اختیار کرگئی،راہ فرار اختیار کرنے والی اکثریت نے پڑوسی ملک سے سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا تو افواج پاکستان نے ان کو وہ سبق سکھایا کہ ان کے مدد گار اب امن اور دوستی کی زبان بولنے پر مجبور نظر آتے ہیں کیونکہ پاک فوج نے ہمسایہ ملک میں بھی ان کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔
آج امن و امان کی بحالی کے لیے پاک فوج کی جانب سے شروع کیا گیا آپریشن ردالفساد جب اپنی کامیابیوں کی منازل طے کر رہاہے، پوری قوم نے اس پر سکھ کا سانس لیا ہے ۔آپریشن ردالفساد کے ذریعے ملک میں ان چار سالوں کے دوران امن و امان کی بحالی دہشتگردوں کی سرکوبی اور ملک کو دشمنوں سے پاک کرنے کے لیے متعددعملی اقدامات کیے گئے۔آج سے چار سال قبل جب ملک میں دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور کوئی شخص خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہا تھا تو اس وقت ملک کے سیکورٹی اداروں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ پاکستان کی رونقیں بحال کریں اور بجھتی ہوئی روشنیوں کو دوبارہ روشن کریں۔پاک فوج کی ان بے مثال قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ بالآخر وطن عزیز کی روشنیاں لوٹ آئیں اور اس کے مکینوں کے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہونے لگے۔گزشتہ ہفتے اس موقع پر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ہیڈ کوارٹر میں ایک خصوصی پریس بریفنگ کا اہتمام کیاگیا۔جس میںپاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو آپریشن ردالفساد کی چار سالہ کامیابیوں پر مبارکباد پیش کی اور انہیں بتایا اس آپریشن کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے آپریشن ردالفساد سے متعلق پریس بریفنگ میں کہا کہ دہشت گردو ں کے خلاف پاک فوج نے پورے ملک میں آپریشنز کیے۔ 22 فروری 2017 کو آرمی چیف کی قیادت میں آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا۔آج ہر پاکستانی آپریشن ردالفساد کا حصہ ہے۔ آپریشن ردالفساد کا مقصد ملک میں امن کا قیام تھا۔ آپریشن ردالفساد کا دائرہ پورے ملک پر محیط تھا۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کا مقصد عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا تھا۔ آپریشن ردالفساد کا محور عوام تھے، آپریسن کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا۔اور اس آپریشن کے حوالے سے ٹائمنگ بہت اہم رہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن رد الفساد 2 نکاتی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔ دہشتگردوں نے ملک کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ آپریشن ردالفساد کا مقصد ان دہشت گردوں کو غیر موثر کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت قبائلی علاقے کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیاکہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے۔ ملک بھر میں انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر اب تک 3 لاکھ سے زائد آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ جن میں ملک بھر سے 72 ہزار سے زائد غیر قانونی ہتھیاروں سمیت جدید اسلحہ برآمد کیا گیا۔ دہشتگردوں نے پاکستان میں زندگی مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کو ناکام بنایا گیا۔گوادر میں ہوٹل پر حملے کے دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔اس مسلسل کارروائی میں 750 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے پر ریاست کی رٹ بحال کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہزار 684 کراس بارڈرواقعات ہوئے۔ آپریشن ردالفساد کے تحت خیبرآپریشن فور بھی کیا گیا۔ پاک افغان بارڈر کام 84 فیصد مکمل کر لیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشنز کے دوران بہت سے لوگ بے دخل ہوئے۔ خفیہ اداروں نے سخت محنت سے بڑے دہشت گردنیٹ ورک پکڑے۔ ایک ہزار 200 سے زائد شدت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔ پیغام پاکستان نے شدت پسندی کے بیانیے کو بڑی حد تک شکست دی۔ 195 دہشت گردوں کو مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ اب تک آپریشن کے دوران 48 ہزار سے زائد بارودی سرنگوں کا سراغ لگایا گیا۔
آپریشن رد الفساد کے ثمرات۔۔۔۔۔
اس ملک گیر آپریشن کے ثمرات پر بات کرتے ہوے ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آج گوادرمیں ترقیاتی کام ہورہے ہیں اور کراچی میں امن ہے۔ بارودی سرنگوں کو تلف کرتے ہوئے ہمارے 2 سپاہی شہید اور 119 زخمی ہوئے۔ شدت پسندی کی طرف مائل 5 ہزار افراد کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ٹیررازم (دہشت گردی) سے ٹوورازم (سیاحت) کا سفر انتہائی کٹھن اور صبر آزما رہا۔ کراچی سے لے کر ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان سے متعلق واضح بہتری آئی۔اس بات کا امکان پیدا ہو رہا ہے 23 مارچ کی پریڈ کا انعقاد بھرپور طریقے سے ہوگا۔ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آج ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہیں۔ ممکن ہے گوادرکرکٹ اسٹیڈیم میں بھی ایک میچ کروایا جائے۔ آج یوم پاکستان کا مقصد ہے ایک قوم بن کرایک منز ل کی جانب امن کاسفر جاری رکھنا ہے۔
کرونا اور ردالفساد۔
کرونا کے اثرات اور اس اہم آپریشن پر گفتگو کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک سال ہم قدرتی آفات سے بھی نبرد آزما تھے۔ قدرتی آفات کے دورا ن بھی آپریشن ردالفساد نہیں روکا گیا۔ کورونا کا مقابلہ حکمت عملی اور دانشمندی سے کیا۔ مردم شماری کا انعقاد کامیابی سے کیا گیا۔پاکستان مخالف بیانیے کوشکست دی گئی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد معاشی بہتری بھی سامنے آئی۔انہوں نے بتایا کہ مدارس اصلاحات، سابق فاٹا کا خیبرپختونخوا سے الحاق ردالفساد کے ثمرات ہیں۔ آپریشن ردالفساد صرف فوجی آپریشن نہیں تھا۔ ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق 78 سے زائد دہشتگرد تنظیموں کے خلاف موثر ایکشن کیا گیا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 450 اہلکار شہید ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا افغان امن عمل کے لیے پاکستان کے کردار کی معترف ہے۔ افغانستان کے امن سے پاکستان کا امن جڑا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ گوادر، شمالی علاقے اور کیٹو دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ چمن بارڈر پر ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم جلد فعال کردیا جائے گا۔ وہ علاقے جو دہشتگردی کا شکار تھے اب وہاں اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق پنجاب میں 36 ہزار سے زائد آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام اہداف حاصل کرلئے جائیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کے خلاف کام کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا روکنے کیلئے قابل ذکر اقدامات کیے گئے ہیں۔پاک فوج کا عزم ہے کہ عوام کو محفوظ بنانے کیلئے مسلح افواج ہر قسم کا تعاون پیش کرے گی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہتر اندازمیں مرحلہ وار اور حکمت عملی سے کام جاری ہے ۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات اور شدت میں کمی آئی ہے۔ ہرسانحے کو دہشت گردی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ قبائلی اضلاع کا اپنا کلچر ہے، وہاں کے مسائل کے حل میں وقت لگے گا۔
انہوں نے کہا کہ امن کی کوششوں میں تمام علمائے کرام کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کے پیش کیے گئے ڈوزیئر کے حوصلہ افزا نتائج آئے ہیں۔پاکستان کے پچھلے چار سال کے سفر کو ہر سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف اور ردالفساد۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف آبزرویشنز پر بڑا کام کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بہت پرامید ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جن اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ان مطالبات کو پورا کرنے کے لئے بھی پاک فوج کی جانب سے موثر اقدامات کیے گئے۔تمام بین الاقوامی اداروں نے پاک فوج کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا اور دنیا میں دہشتگردی کو ختم کرنے کے لیے مثالی اقدامات قرار دیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سابق فاٹا میں پولیسنگ معمول پر آنے پر دہشتگردی کے واقعات میں کمی آجائے گی۔ ضم شدہ قبائلی علاقوں میں پولیس جلد انتظام سنبھال لے گی۔ عوام کی حمایت یا عزم نہ ہوتا تو یہ جنگ نہیں لڑی جا سکتی تھی۔
آپریشن ردالفساد کا پس منظر۔۔۔۔۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن ردالفساد کی وجہ سے ملک بھر میں عمومی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے بدستور حملوں کے زد میں رہے۔فوج کے موجودہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد سے اس آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ کیونکہ سال 2017 کے ابتدائی دو ماہ میں ملک میں دہشت گرد کارروائیوں میں اچانک تیزی آئی۔ لاہور میں چیئرنگ کراس پر ہونے ولا واقعہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہے جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں فروری 2017 میں فوج کی طرف سے آپریشن ردالفساد کے نام سے ایک نئے آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
اس آپریشن کے بڑے اہداف میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم شدت پسندوں کے ’سلپر سیلز‘ اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس آپریشن میں اب تک بیشتر کارروائیاں انٹلیجنس معلومات کے تحت کی گئی ہیں اور جس کا دائرہ فاٹا اور خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی، بلوچستان اور پنجاب کے صوبوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔
ردالفساد ایک وسیع المقاصد پراجیکٹ۔
پاک فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’رد الفساد‘ کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا اور سرحد کی سکیورٹی بھی یقینی بنانا ہے۔دفاعی امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ردالفساد کے تحت ہونے والی زیادہ تر کارروائیاں کامیاب رہی ہے جہاں تک دہشت گردی کے منبع اور جڑ کا تعلق ہے اس پر بھی خاص توجہ دی گئی جس سے اس آپریشن کو مکمل طور پر کامیاب بنانے میں مدد ملی۔بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے ہے کہ ’جب تک ہم افغانستان کے ساتھ ایک نئی اور مثبت سوچ کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے اس وقت تک دہشت گردی کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوسکتا۔‘بلا شبہ ’افغانستان کے ساتھ آج کل مذاکرات کا عمل مثبت پیش رفت کی طرف بڑھ رہا لیکن اسے مزید مربوط بنانا ہوگا اور دونوں ممالک کو اپنے اپنے موقف سے ہٹ کر قابل عمل اعتماد سازی کی طرف بڑھنا ہوگا ورنہ اس کے علاوہ اس معاملے کا اور کوئی حل بظاہر نظر نہیں آتا۔‘پاکستان میں آپریشن ردالفساد کے بعد عوامی مقامات پر اگرچہ بڑے بڑے دھماکوں اور واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن ہدف بنا کر حملوں کے واقعات کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ اس ضمن میںپشاور میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے جس میں پولیس کے اے آئی جی کی ہلاکت کے علاوہ زرعی تربیتی ادارے پر بڑا حملہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی مسلسل پولیس اور سکیورٹی اہلکار حملوں کے زد میں رہے۔تاہم پاک فوج کی بروقت کاروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی سرکوبی کی گئی اور ان میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔