اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو وکلا کے اسلام آباد کچہری میں چیمبرز گرانے سے روک دیا۔ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ وکلاء جس ادارے کا حصہ ہیں اس کا احترام بھی کریں۔ روسٹرم پر وکلاء کا مجمع لگنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا اور تمام وکلاء کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کسی کے دبائو میں نہیں آئے گی۔ وکلاء عدالت کو پریشر میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ ہم بھی وکیل رہے ہیں لیکن ایسی حرکتیں کبھی نہیں کیں۔ کسی وکیل نے پریکٹس کرنی ہے تو اپنا دفتر خود بنائے۔ عوامی مقامات پر قبضہ کرنا وکیلوں کا کام نہیں۔ وکیل حامد خان نے موقف اپنایا کہ ہائیکورٹ نے وکلاء کو سنا ہی نہیں۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہائیکورٹ میں کیس کی چار سماعتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے وکلاء رہنماؤں سے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ وکلا نے فٹ بال گرائونڈ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر مکمل ہونے پر کارروائی کو روکا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ تو کمیونٹی پلاٹ ہے اس پر قبضہ کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ وکلاء نے کچہری میں سڑک پر بھی چیمبرز بنا رکھے ہیں۔ کیا وکلاء کے چیمبرز قانون کے مطابق ایسے بن سکتے ہیں۔ بچوں کے پلے گراونڈز پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ ہائیکورٹ نے وکلا کے کیلئے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا چیمبرز بنانے کے بعد یہ ذاتی ملکیت سمجھ لی جاتی ہے۔ اسلام آباد بار چیمبرز الاٹ کرنے میں شامل رہی ہے۔ کیا قانون اس طرح قبضہ کی اجازت دیتا ہے۔ وکلاء اپنی عزت و تکریم پر سمجھوتہ نہ کریں۔ ہم بھی خود کو وکلاء کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وکلاء عدالتوں کیلئے جیسی گفتگو کرتے ہیں وہ بھی دیکھیں۔ یہ کیا طریقہ ہے جہاں چار وکیل جمع ہوں مائیکرو فون اٹھا کر تقریر شروع کردی۔ وکلاء عدلیہ کا حصہ ہوکر اسکے خلاف کیا کچھ نہیں کہتے۔ ہم نے وکلاء کی تقاریر کی ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔ عدالتوں کے بارے میں کیا نہیں کہتے۔ وکلا کو سمجھ، عقل و شعور سے کام لینا چاہئے۔ خود پر بھی کوئی پابندی لگانی چاہئے۔ وکیل اسلام آباد بار کونسل نے کہا ملک میں کہیں اور دکانوں میں عدالتیں بھی نہیں لگتیں۔ چیف جسٹس نے کہا قبضہ دس سال سے بھی ہو تو کیا وہ کسی کی ذاتی ملکیت بن جا تا ہے۔
اسلام آباد کچہری میں چیمبرز گرانے سے رکدیا وکلا جس ادارے کا حصہ ہیں اسکا احترام بھی کریں: جسٹس گلزار
Feb 27, 2021