حضور نبی اکرم ؐاللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے :’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ ِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘ الاحزاب، 33 : 40۔اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرمؐ کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ؐ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔ احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ ؐ کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہء ِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ ؐ نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔حضرت انس بن مالک ؓ سیً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘اگر کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعوی کرے خواہ کسی معنی میں ہووہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ اسکی سزاصرف اورصرف گردن زنی ہے نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے، اس سے جہاد فرض ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:’’جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبہشہادت میں نے پھونکا تھا۔‘‘ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش وجذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہورہے ہیں تو انھوں نے اپنے اپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جولوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی، ان کے خون کا ذمہ دار ہوںگا؛ کیوںکہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں سات ہزار حفاظ قرآن، تحفظ ختم نبوت کی خاطر شہید ہوئے تھے۔ (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگئی)۔ (تحریک ختم نبوت کا آغاز شورش کاشمیری بحوالہ روزنامہ اسلام) اسلامی دور حکومت میں، جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا، یا حرف زنی کی، مسلمان خلفاء وامرائنے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا، جس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔ غازی علم الدین نے صدیوں کا سفر اس تیزی اور کامیابی سے طے کیا کہ ارباب ِزہد و تقویٰ اور اصحابِ منبر و محراب بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس نے ایک قدم انارکلی ہسپتال روڈ پر اٹھایا اور دوسرے قدم پر جنت الفردوس میں پہنچ گیا۔اسی جنت کی تلاش میں زاہدوں اور عابدوں
کے نجانے کتنے قافلے سرگرداں رہے،مولانا ظفر علی خاں نے غازی علم الدین شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا:’شہید علم الدین کے خون کی حدت سے غیرت و حمیت کے وہ چراغ روشن ہوئے ہیں، جنھیں مخالف ہوا کے تند و تیز جھونکے بھی بجھا نہیں سکتے، آپ کی شہادت سے قوم کو ایک نئی زندگی ملی ہے، وہ زندگی جسے اب موت بھی نہیں مار سکتی۔‘‘پشاور کی مقامی عدالت میں توہین رسالت کیس کی سماعت کے دوران ایک نوجوان نے قادیانی گستاخ کو جج کے سامنے گولی ماردی۔گولی لگنے سے مبینہ طور پر گستاخ کی موقع پر موت ہو گئی، نعش عدالت میں پڑی رہی، پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے ملزم گرفتارکر کے حوالات میں بند کر دیا۔پاکستان میں قادیانیوں کی بڑھتی سرگرمیوں پر مسلمانوں کو شدید تشویش لاحق ہے۔کوئی مسلمان اپنے نبی حضرت محمد ؐ کی توہین کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔