یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ یہاں ہر دور میں پرانے چہرے نئی جماعتوں میں یا جماعتیں بدل بدل کر عوام کے سامنے آتے ہیں۔ کبھی سائیکل، کبھی شیر، کبھی تیر، کبھی کتاب تو کبھی بیٹ تو کبھی کسی اور انتخابی نشان سے سیاست کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ووٹرز بھی کمال ہین وہ یہ کم ہی دیکھتے ہیں کہ بیس سال میں ایک ہی شخص مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ووٹ مانگنے آتا ہے اور ووٹر ہر مرتبہ اسے ووٹ دے کر اپنا مستقبل اس سیاسی جماعتیں بدلنے والے کے سپرد کر دیتا ہے۔ بہرحال یہ وہ تکلیف دہ پہلو ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ سیاست دان عوامی نمائندے ہوتے ہیں اور وہ صرف حکمرانی ہی نہیں بلکہ عوام کی اخلاقی تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن یہ کام وہ کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ وہ تو خود ہر انتخابات میں کسی نئی جماعت کا حصہ بنے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ان دنوں بھی ایسا ہی کھیل جاری ہے کوئی پتہ نہیں کب کس کا انتخابی نشان بدل جائے کیونکہ ہر بندے توڑنے کا عمل جاری ہے۔ ٹکڑوں میں لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں، ترغیبات دی جا رہی ہیں، وعدے کیے جا رہے ہیں، ورغلایا جا رہا ہے۔ کیا دن آ گئے ہیں کہ پرویز خٹک جیسے سینئر سیاستدان کو بھی ٹوٹے ہوئے اراکین کی تعداد کا دعویٰ کرنا پڑ گیا ہے۔ حالانکہ یہ ان کا معیار نہیں کہ وہ دو دو تین تین یا چار پانچ بندے توڑنے کے دعوے کرتے رہیں۔ ویسے دوسری طرف بھی بلکہ ہر طرف ہی یہ صورتحال ہے۔ سب ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہے ہیں، کتنے آدمی ہیں، کتنے آدمی تھے، کتنے آدمی ہوں گے۔ جانے یہ گنتی کب ختم ہو گی، کب عوام پر توجہ ہو گی اور کب عام آدمی کے مسائل حل ہوں گے۔ یہ لوگ اپنے لوگوں کی گنتی میں رہتے ہیں اور عام آدمی کے مسائل ان گنت ہو چکے ہیں۔ ایسے نظام حکومت پر یوں ہی شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے نہیں لکھا کہ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
بدقسمتی ہے کہ ایسا نظام حکومت جہاں بندوں کو گننے کے ساتھ ساتھ تولنا بھی چاہیے ہم اس سوچ سے محروم ہیں، ہم اس جذبے سے محروم ہیں جہاں ہر حال میں جی سر ہی کہنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے جہاں جرات انکار نہ ہو، جرات اظہار نہ ہو۔ ویسے تو بہت سے نامی گرامی اور نمایاں سیاست دان آزادی اظہار کے معاملے پر یکجا ہوتے ہیں لیکن کسی میں اپنے قائد کے سامنے آزادی اظہار کی جرات نہیں رکھتے لیکن آزادی اظہار کے معاملے پر سیاست میں پیش پیش ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا اپنے قائد کے ہر درست غلط فیصلے پر مہر لگانا آزادی اظہار پر حملہ نہیں ہے۔ بہر حال یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی بات پرویز خٹک کے دعوے کی ہو رہی تھی۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن کے7 ارکان اپنے ساتھ ملانیکا دعویٰ کردیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما پرویز خٹک کہتے ہیں کہ "ہمارا کوئی ایم این اے کہیں نہیں جا رہا، یہ سب افواہیں ہیں اپوزیشن کے سات اراکینِ قومی اسمبلی ہماریساتھ ہیں سب دیکھ لیں گے کہ وقت آنے پر ہم اپوزیشن کو کیسے توڑتے ہیں۔ ہم سو نہیں رہے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اپوزیشن ہمارے اتحادیوں کو توڑ نہیں سکتی، اپوزیشن جماعتوں کے رنگ اڑے ہوئے ہیں، حزب اختلاف کا ڈرامہ ناکام ہونے والا ہے"۔پرویز خٹک جانتے ہیں کہ جب سیاسی تبدیلی کا وقت آتا ہے تبدیلی کی ہوا چلتی ہے تو وفاداریاں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اس وقت آپ کے ساتھ سات ہوں یا ستر لوگ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تبدیلی کا طوفان سب کو اڑا لے جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پرویز خٹک سات لوگوں کی حمایت حاصل کرنے پر وقت لگانے یا انہیں کسی اور جگہ جانے سے روکنے پر محنت کے بجائے بائیس کروڑ لوگوں کی خدمت میں وقت صرف کریں۔ ووٹر کبھی آپکو شرمندہ نہیں کروائے گا۔ ووٹر کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کہیں نہیں جاتا بلکہ قائدین ہی قلابازیاں لگاتے رہتے ہیں۔ پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کو جس مصیبت کا سامنا ہے یا جو مشکلات انہیں آ رہی ہیں اس کی وجہ کوئی اور نہیں حکومت خود ہے۔ اس لیے وہ ایسے کاموں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ووٹرز کی مشکلات کم کرنے پر توجہ دیں یقیناً بہتر نتائج ملیں گے۔جہانگیر ترین علاج کے لیے بیرون ملک گئے ہیں وہ ایک اچھے اور کام کرنے والے سیاستدان ہیں گوکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا وہ کئی شعبوں میں بہت اچھا کام کر سکتے تھے لیکن حکومت نے ان سے کام لینے کے بجائے انہیں کام پر لگا دیا اور اس کا نقصان جہانگیر ترین سے زیادہ حکومت اور سب سے زیادہ عام آدمی کو ہوا کیونکہ جہانگیر ترین جن شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں وہ شعبے براہ راست عام آدمی سے جڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اس طرف مصروف رکھا جاتا تو بہتر تھا۔ بہرحال اب تو وقت گذر چکا ہے گذر وقت واپس نہیں آتا لیکن دعا ہے کہ جہانگیر خان ترین مکمل صحت کے ساتھ وطن واپس آئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عاجلہ و کاملہ نصیب فرمائے۔ ان کی تکلیف ختم ہو اور وہ ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔خبر یہ بھی ہے کہ کراچی میں معروف کامیڈین شکیل صدیقی کی کار چوری ہو گئی ہے۔ گاڑی گذشتہ روز ساڑھے پانچ بجے نارتھ کراچی سیکٹر 11 اے میں گھر کے باہر سے چوری ہوئی ہے۔ شکیل صدیقی اپنے جملوں لوگوں کی پریشانی اڑاتے تھے سو چور صاحبان کو یہ بات یقیناً ناگوار گذری ہو گی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شکیل صدیقی کی کار ہی اڑا لی ہے۔ یوں اب شکیل صدیقی کچھ اور کریں نہ کریں ان چوروں کا مذاق ضرور اڑائیں گے اور جہاں موقع ملے گا ایسی ایسی جگت کریں گے کہ چوروں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی شرط یہ ہے کہ کراچی پولیس ان ظالم چوروں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جائے۔