ڈپلومیسی یا ڈپلومیٹک کا لفظ ذہن میں آتے ہی ہمارے لوگوں میں منفی تاثر ابھرتا ہے یعنی یہ ایسی منافقت سمجھی جاتی ہے کہ یہ تیرے منہ پر تیرے اور میرے منہ پر میرے والی پالیسی ہے یعنی دوغلا پن لیکن آج کے جدید دو ر میںDiplomacy سے مرادبین ا لاقوامی تعلقات کی حکمت عملی کو لیا جاتا ہے کسی بھی ریاست کو معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے بہترین سفارتکاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان دنوں پاکستانی قوم روس یوکرائن کے جنگی دہانے پر کھڑے ہو کر حکومت پاکستان کی روس کیساتھ غیر معمولی سفارتکاری کو لے کر کافی کنفیوژڈ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اس بے وقتی اور عجلتی دورہ پر داددی جائے یاتنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن حکومت پر بے جا تنقید سے قبل پاک روس اور پاک یوکرائن تعلقات کے پس منظر میں جانا ضروری ہے پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی1947ء سے 1950 ء تک پاکستان کے روس کیساتھ دوستانہ تعلقات قائم رہے لیکن دونوں ملکوں میںپہلا مار شل سے دوریاں بڑھنا شروع ہو گیں1965ء سے جنرل ایوب کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد 1980 ء تک پاک روس تعلقات اپس اینڈ ڈائون کا شکار رہے لیکن اس سے قبل 1970ء کی سرد جنگ میںجب پاکستان نے مغرب کا ساتھ دیا تو بدلے میںروس نے افغان کیمونسٹ پارٹی کو ڈیورینڈ لائن (پاک افغان سرحد)جو کہ2670لمبی ہے پر چڑھائی کے حوالے سے سپورٹ شروع کر دی 1980ء میںہی افغانستان پر روس کے غاصبانہ قبضہ کیخلاف پاکستان ان 80 ممالک میں شامل تھاجنہوں نے روس میں منعقد ہونے والی ورلڈ اولمپک کھیلوں کا بایئکاٹ کیا لیکن جیسے ہی سابقہ صدرجنرل ضیا الحق دور میں پاکستان ورلڈ گریٹ گیم کا حصہ بنا اور امریکی اتحادی بن کر روس افغانستان جنگ میںافغان مجاہدین کو سپورٹ کرنا شروع کیا تو پاک روس تعلقات میں خلیج بڑھنے لگی اور اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کے روس کو پاکستانی سرحدوں کی جانب پیش قدمی سے روکا جائے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی روسی پاکستان کی جانب سے افغان مجاہدین کو فراہم کئے جانیوالےFIM-92 ٖ سٹنگر مزائل کو نہیں بھولے جنہوں نے طاقت ور ترین سویت ائر فورس کو ناکوں چنے چبوا دئے دوسرے لفظوں میں سویت یونین(ریاست ہائے متحدہ روس) سے محض روس بنانے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے اور اس ردعمل کے طور پر کیسے ممکن تھا کہ ہمار دشمن ملک بھارت موقع سے فائدہ نہ اٹھائے اور یوں بھارت کی روس سے دوستی کی پینگیں بڑھنا شروع ہو گیں اور بھارت روس کے اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار رہا اور انڈو رشیا سٹراجیک پاٹنر شپ پانچ بڑے روائتی جزوں پر مشتمل ہے جن میں سیاست، دفاع، سول نیوکلر انرجی،انٹی ٹیررازم کو آپریشن اور خلائی مشن شامل ہیں جبکہ دوسری طرف پاک یوکرائین تعلقات کی بات کی جائے تو پاکستان نے سویت یونین خاتمہ کے بعد 1991ء میں یوکرائن کو آزاد ریاست کی حیثیت سے قبول کر لیا 30 سالہ باہمی دوستی میں پاکستان اور یوکرائین جہا ں تعلیم و ثقافت کا تبادلہ کر رہے ہیں وہاں ان دونوں ممالک کے مابین ائیر سپیس انجینئرنگ ،ایئر و سپیس ٹیکنالوجی، بایئو میڈیکل سائنس ،سائنس و ٹیکنالوجی کے بہت سے معاہدات شامل ہیں نہ صرف یہ بلکہ پاکستان یوکرائن سے اجناس میں گندم اور معدنی خام مال بھی در آمد کرتا ہے علاوہ ازیں پاکستان سٹراجیک پارٹنر خریدار کی حیثیت سے 620ملین ڈالر کی مالیت کے 320ٹینک خرید چکا ہے یوکرائن کے 16% شہری ابھی بھی روس نواز ہیں یہی وجہ ہے کہ روس اور ایک دوسرا پڑوسی ملک بیلا روس یوکرائن میں بسنے والے انہی 16% پرو رشین علیحدگی پسند شہریوں کے حقوق کے نام پر یوکرائن پر چڑھ دوڑے اور مشرقی سرحد پر واقع دو ریاستوں ڈونسٹک اور لوہنسک کی آزاد حیثیت کو تسلیم کر چکے ہیں لیکن سیاسی ناقدین کیمطابق اس کھیل کے پس پردہ مقاصد میں روس کا یوکرائن کے ایٹمی پاور پلانٹ چرنوبل پر قبضہ کرنا تھا پھر ایسا ہی دیکھنے میں ملا اور اس سب کی بنیادی وجہ پرو رشین کمیونسٹ اور جدید مغربی یوکرائنی نظریات کی جنگ ہے اور آزادی کے باوجود یوکرائن پر روس کا اثر رسوخ قائم رہا اور براہ راست اسکی پالیسوں پر اثر انداز ہوتا رہا گذشتہ یوکرینی صدر جو کہ پرو رشین تھے نے یوری یونین میں یوکرائن کی شمولیت کو ویٹو کر دیا تھا جس پر ملکی مظاہروں کے بعد انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا حالیہ جنگ کے بعدیوکرینی صدر کی بے بسی اور یورپی یونین اور امریکی صدر کا رد عمل محض طفل تسلیاں ہی ثابت ہوئے۔ عالمی سیاسی بساط اور شطرنج کی چالوں میں یکسر تبدیلی آچکی ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات کے از سر نو استوار کر نے بارے میں بات کی جائے تو یہ موجودہ حکومت کا ایک احسن قدم ہے۔ پاکستان کو روس کے قریب جانے کا موقع ملا ۔ پاکستان نے سٹریم گیس پائپ لائن کے بدلے میںروس کو گوادر کے گرم پانیوں تک رسائی دینے کا عزم کیا ۔ پاکستان کے امریکہ‘ یورپی یونین اور روس کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہو چکے لہٰذا یہاں ہمیں بہترین ڈپلومیسی کی ضرورت ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’ دونوں تر رکھنا‘‘ یعنی دونوں گروپوں کی عزت رکھنا۔