نئی دہلی(این این آئی) بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ خودکشی سے مرنے والے زیادہ تر طلبا کا تعلق دلت اور آدیواسی برادریوں سے ہے، کہاہے کہ جج سماجی حقائق سے منہ نہیں موڈ سکتے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ڈی وائی چندر چوڑ نے نیشنل اکیڈمی آف لیگل سٹڈیز اینڈ ریسرچ (NALSAR)میں ایک کنووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے آئی آئی ٹی بمبئی میں ایک دلت طالب علم کی خودکشی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات جن میں پسماندہ طبقات شامل ہیں، عام ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے فرسٹ ائیر کے طالب علم درشن سولنکی نے مبینہ طور پر 12فروری کو بمبئی کے آئی آئی ٹی میں خودکشی کر لی تھی۔ بھارتی چیف جسٹس نے کہاکہ جج سماجی حقائق سے منہ نہیں موڑ سکتے اور عدالتی مکالمے کی مثالیں دنیا بھر میں عام ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد’’ سیاہ فاموں کی زندگیاں اہمیت رکھتی ہیں‘‘ تحریک ابھری تو امریکی سپریم کورٹ کے تمام نو ججوں نے سیاہ فاموں کی زندگیوں کی تنزلی اور قدر میں کمی کے بارے میں عدلیہ کے نام ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔انہوں نے طلبا کی خودکشی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ ہمارے ادارے کہاں غلط ہو رہے ہیں کہ طلبا اپنی جان لینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے حال ہی میں آئی آئی ٹی بمبئی میں ایک دلت طالب علم کی خودکشی کے بارے میں پڑھا۔ اس نے مجھے گزشتہ سال ا ڑیسہ کی نیشنل لا ء یونیورسٹی میں ایک آدیواسی طالب علم کی خودکشی کے بارے میں یاد دلایا۔انہوں نے کہاکہ میرا دل ان طلباء کے لواحقین کے ساتھ دکھتا ہے۔ تاہم میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ادارے کہاں غلط ہو رہے ہیںکہ طلباء اپنی قیمتی جان دینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کے خاتمے کی طرف پہلا قدم یہ ہوسکتا ہے کہ داخلہ امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر ہاسٹل کے کمروں کی الاٹمنٹ کو روکا جائے۔ انہوںنے کہاکہ میرے خیال میں امتیازی سلوک کا مسئلہ تعلیمی اداروں میں ہمدردی کی کمی سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔
بھارتی چیف جسٹس