فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
انتہائی بد قسمتی ہے کہ ملک عزیز میں معاشی، معاشرتی ،سماجی اور اخلاقی زوال کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔اس بگاڑ نے مجموعی طور پر معاشرے میں اتنا تعفن پھیلا دیا ہے کہ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔اوپر سے دیسی لبرلز کی پھیلائی غلاظت اصلاح احوال کی کوئی صورت پیدا نہیں ہونے دے رہی۔ یہ اس بد قسمت قوم کے ساتھ بڑا حادثہ ہے۔حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ارباب اختیار اور مصلح باخبر تو ضرور ہیں لیکن فکر مند نہیں اور نہ ہی ان کے کانوں کے ارد گرد کوئی جوں وغیرہ رینگ رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات فی الحال اس زوال کے متاثرین میں سے نہیں۔لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ زیادہ دیر اس کے اثرات بد سے محفوظ رہیں۔یہ حضرات تاریخ سے بے خبر ہیں اور مکافات عمل کے فلسفہ سے ناواقف ہیں۔ مکافات عمل یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے جو گڑھا کھودتا ہے خود بھی اس میں ضرور گرتا ہے۔ یہ ابدی حقیقت ہے اور اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ
ازل سے ہے مکافات عمل کا سلسلہ قائم
رلایا جس نے اوروں کو وہ خود بھی چشم تر ہو گا
ان ظالموں میں خوف خدا نہیں رہا۔ہر روز جنازوں میں جاتے ہیں اور تدفین کے عمل میں شامل ہوتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ان کے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ ان کو موت کا خیال نہیںاور نہ ہی احساس ہے کہ اپنے کرتوتوں کا حساب دینا ہے۔مکافات عمل کے حوالے سے برصغیر کے مقبول عوامی شاعرجناب نظیر اکبر آبادی کی نظم’’مکافات عمل ‘‘ بہت سے اسباق سمیٹے ہوئے ۔
ہے دنیا جس کا نام میاں ،یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اور سستوں کویہ سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیںہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کر و اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی مان ملے
جو پان کھلاوے پان ملے جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیرنہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودادست بہ دستی ہے
دور حاضر کے فرعون یہ جان لیں کہ دنیا میں کوئی اندھیر نگری نہیں ہے۔جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزاپائو گے اگر قدرت تمہاری رسی دراز کرتی جا رہی ہے تو یہ مت سمجھنا کہ مکافات عمل سے بچ جائو گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مملکت خداداد میں اس معاشرتی بگاڑکے اسباب کیا ہیں ۔اس حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ،صفحوں کے صفحے سیا ہ کر دیے گئے لیکن کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔اس حوالے سے حجتہ الکاملین امام الواصلین حضرت ابو الحن سید علی بن عثمان ہجویری ؒ نے تصوف کی بنیادی اور شہرہ آفاق تصنیف میںکشف المحجوب میںحضرت محمد بن عمر الوراق ؒکا قول نقل فرمایا جس کا ترجمہ ہے کہ لوگوں کی تین اقسام ہیںعلما ، فقرا، اور امرا۔ جب امرا میں فساد پیدا ہوگا توتو لوگوں کی معیشت اور ذرائع کسب تباہ ہو جائیں گے،جب علما میں فساد برپا ہو گا تو اطاعت الہٰی اور پابندی شریعت ختم ہو جائے گی اور جب فقرا بگڑیں گے تو لوگوں کے اخلاق بگڑ جائیں گے۔
قربان جائیں ان صوفی دانشوروںپر جنہوں ایک ہزار سال قبل اتنا عمدہ اور حقیقت کے قریب تجزیہ پیش فرمایا۔حقیقت یہ ہے کہ بگاڑ کے یہی اسباب ہیں اور اسی فرمان میںاس صورت حال کا حل بھی پوشیدہ ہے۔یہ تین طبقے جب ٹھیک ہو جائیں گے تو پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔قوم دعا کرے کہ اللہ پاک کوئی نجات دہندہ بھیجے جو ان طبقات کی اصلاح کرے تاکہ جبر و ظلم کا شکار سسکتی قوم سکھ کا سانس لے سکے۔دور حاضر کے نابالغ سیاستدانوں،مفاد پرست حکمرانوں اور نااہل منتظموں نے تو جو ملک کا حال کر دیا ہے ان سے کسی قسم کی بہتری کی امید نہیں۔اللہ ملک پاکستان کو مستحکم فرمائے اور اس کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کی ناک خاک آلود فرمائے۔