مارچ اور اپریل ڈینگی کی بریڈنگ کا مہینہ


پنجاب کی92فیصد آبادی کوکوروناکی مکمل ویکسین لگادی گئی ہے
،ٹیمزکولارویکے خاتمے کی ہدایت کردی
عیشہ پیرزادہ 
Eishapirzada1@hotmail.com 
آج تو ہم صرف یہی جانتے ہیں کہ آئی جی صرف محکمہ پولیس کا ہی ہوتا ہے، لیکن ایک زمانہ تھا کہ محکمہ صحت کا بھی آئی جی ہوا کرتا تھا جس کو انسپکٹر جنرل پریزنز اینڈ ڈسپنسریز کہتے تھے۔یہ 1854 کی بات ہے جب پنجاب میں محکمہ صحت کا سب سے پہلا باقاعدہ ادارہ قائم ہوا تھا۔
 پھر 1880 میں انسپکٹر جنرل ڈسپنسریز، 1884 میں انسپکٹر جنرل سول ہاسپٹلز اور قیام پاکستان کے بعد 1949 میں ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز سے ہوتے ہوئے اس ادارے کو 1989 میں ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کے نام سے موسم کردیا گیا۔ آج اس ادارے کے ہیڈ کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب کہتے ہیں۔ آج کل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب' پاکستان کے ایک ایسے بیوروکریٹ ڈاکٹر ہیں' جو انگریز دور سے بیوروکریسی کو وراثت میں ملی تمام تر کڑواہٹوں کے بالکل اْلٹ ایک راست باز، دیانتدار اور اخلاق حسنہ سے مالا مال افسر کے طور پر اپنی جداگانہ، منفرد اور قابل ستائش پہچان رکھتے ہیں۔ جن کا نام ڈاکٹر الیاس گوندل ہے۔ جو گریڈ 20کے افسر ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز پنجاب کا دورہ کیا۔ وہاں بچوں،مائوں اور دیگر کی ویکسینیشن کیلئے زبردست انتظامات ہوتے دیکھے،پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں مریضوں کو صحت اور ڈاکٹرز کی سہولیات مہیا کرنے کیلئے الیاس گوندل کے وزٹس کی تفصیلات معلوم کیں تو یہ بات علم میں آئی کہ اس عہدے پر اپنی تعیناتی کی مدت سے یہ کرسی پر صرف اس وقت بیٹھتے ہیں جب ضروری کاغذی کارروائی نمٹانی ہو ورنہ نظام صحت کی زیادہ سے زیادہ بہتری اور مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہمہ تن مگن رہتے ہیں۔ جب ہم  ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز پہنچے تو الیاس گوندل ہیپاٹائٹس،ٹی بی،پولیو،کورونااور ڈینگی کوپنجاب بھر میں کنٹرول کرنے کیلئے مختلف میٹنگز میں مصروف تھے۔ آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔
نوائے وقت: آج کل ہمارے ڈاکٹر پڑھ لکھ کر چاہتے ہیں کہ باہر چلے جائیں، آپ بھی باہر جانا چاہتے تھے، پھر کیا وجہ بنی کہ آپ نے اس ارادے کو ترک کردیا؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: میں جب کلاس فور میں تھا تو والدین نے کہا تمہیں گورنمنٹ کالج لاہور جانا ہے، میرے والد کا یہاں ایڈمیشن نہیں ہوسکا تھا، میں دل لگا کر پڑھتا رہا کوشش کرتا رہا اور ایک دن 1980 میں گورنمنٹ کالج میں داخلہ حاصل کر لیا۔ وہاں سے انٹر کیا اور پھر راولپنڈی میڈیکل کالج سے گریجوایشن کی، پھر اس کے بعد میں نے سوچا کہ باہر جاتے ہیں لیکن ماں جی کا حکم تھا کہ نہیں لاہور سے آکے ہمیں کوئی دوائی نہیں دے گا، تو یہیں پر رہنا ہے اپنے ڈسٹرکٹ منڈی بہائوالدین میں اور اپنے گائوں میں ہی کام کرنا ہے۔ پھر ساری زندگی وہیں پر ہی کام کیا، 1990 سے لے کر 2018 تک وہیں رہا۔ لاہور آئی پی ایچ میں پبلک ہیلتھ میں پوسٹ گریجوایشن کی اور اس کے بعد پھر اپنے ہوم ڈسٹرکٹ میں چلا گیا، وہاں ڈی ایچ کیو میں کام کیا، ایم ایس رہا، پھر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بنا، اور پھر تین سال تک بطور چیف ایگزیکٹو ہیلتھ آفیسر کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کے بعد بطور ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز گوجرانوالہ ڈویژن پوسٹنگ ہوئی، وہاں میں نے ایک ماہ ہی کام کیا تو یہاں مجھ سے پہلے جو ڈی جی تھے ڈاکٹر ہارون صاحب ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو مجھے گورنمنٹ نے ڈائریکٹر جنرل پنجاب کے طور پر یہاں لاہور میں تعینات کر دیا۔ یہ میرا میٹرک سے یہاں تک کا سفر ہے۔
نوائے وقت: ڈی جی ہیلتھ پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صحت عامہ کیلئے کون کون سے اقدامات اٹھائے؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: بیماریوں سے بچاؤ کے مقاصد کے لیے بنے تمام پروگرامز کو فعال کیا۔ہیپاٹائٹس، ٹی بی، کمیونیکیبل ڈیزیز سمیت نان کمیونیکیبل ڈیزیز پر بھی کام کررہے ہیں۔ ہمارا ای پی آئی کا بہت اہم اور مضبوط شعبہ ہے جو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ریڑھ کی ہڈی ہے،اس میں ہم ہر کسی کی ویکسینیشن، بچوں، مائوں کی ویکسینیشن یا پھر جو اس کے علاوہ کوئی عالمی وبا آجاتی ہے جس طرح ابھی ہم نے کرونا کو بھگتا ہے،لوگوں کیلئے اس ویکسینیشن کی فراہمی کویقینی بنایا۔ گزشتہ سال ہم نے 89 فیصد تک اس پروگرام کی کوریج ممکن بنائی، بلوچستان میں 38، کے پی کے میں 68 تھی۔ جبکہ ہمارے پنجاب کی طرح انگلینڈ  میںبھی  ویکسینیشن کوریج 89 فیصد تک شمارکی گئی ہے۔ 
نوائے وقت: ایڈز کنٹرول کرنے کیلئے کس پالیسی پر عمل پیرا ہیں؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: پنجاب بھر میں 45 ایڈز کنٹرول سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ ہر ضلع میں کم از کم ایک سینٹر ہے۔ لاہور میں تین سینٹر ہیں۔ سرگودھا میں دو سینٹر ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ڈاکٹرز، ایکسپرٹ کی زیرنگرانی 99 فیصد کامیابی حاصل کی ہوئی ہے کہ جن پریگنینٹ مائوں کو ایڈز ہو اس کے بچے کو اس کاانفیکشن نہ ہونے دیں۔
نوائے وقت: معذور بچوں کی فلاح کیلئے کیا کوشش کررہے ہیں؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: ہم نے سپیشل ایجوکیشن کے اداروں میں پڑھنے والے 70 ہزار معذور طالبعلموں کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیا فراہم کرنے کیلئے میکانزم بنایا ہے۔
نوائے وقت: شہریوں کو ٹی بی سے کس طرح بچارہے ہیں؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: پورے پنجاب میں ڈھائی ہزار بیسک ہیلتھ یونٹس ہیں، 131 ٹی ایچ کیوز اور ڈی ایچ کیوز میں ہر جگہ ٹی بی کنٹرول پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ سٹیٹ آف دی آرٹس مشین کے ذریعے ٹی بی کی تشخیص کرکے کامیاب علاج کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ہر شکایت کانوٹس لیتا ہوں۔
نوائے وقت: ہیپاٹائٹس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کیا پالیسی اپنائی ہے؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: ہماری لیڈی ہیلتھ ورکرز ایک ہزار کی آبادی تک بھی پہنچ کر لوگوں کو ہیپاٹائٹس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز جن کی ہم نے ٹریننگ کی ہوئی ہے وہ اپنے ہیپاٹائٹس کلینکس میں شہریوں کی کونسلنگ کرتے ہیں ان کا علاج کرتے ہیں۔ ہم نے پنجاب بھر میں ہیئر سیلونز کی رجسٹریشن شروع کی ہوئی ہے، ہیپاٹائٹس کی پی سی آر فری آف کاسٹ کرتے ہیں، پوری دنیا میں 57 لیبز پری کوالیفائیڈ ہیں جس میں ہماری ہیپاٹائٹس کی لیب بھی شامل ہے۔مفت پی سی آر ٹیسٹ کرتے ہیں۔کمیونیکیبل ڈیزیز پروگرام کا ذکر کرنا چاہوں گا، اس میں سب سے اہم شوگر اور بلڈپریشر ہے۔ ہماری پروگرام ڈائریکٹر بہت اچھا کام کررہی ہیں۔
نوائے وقت: صحت کے حوالے سے نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: نئی نسل کو صحتمند زندگی کیلئے لائف سٹائل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔تاکہ ان بیماریوں سے بچا جاسکے۔ کھانے پینے کے اطوار،جنک فوڈز سے پرہیز کی ضرورت ہے۔ ایکسرسائز، واک کا اہتمام ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ ٹائم سوشل میڈیا لے رہا ہے جس وجہ سے لائف کا مقصد ختم ہوکررہ گیا ہے۔
نوائے وقت:لاہور میں پولیو کے کیس کے متعلق افواہ پھیلی تھی، کیا محض افواہ ہی ہے یا کوئی واقعی کوئی کیس سامنے آیا ہے؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: آپ ہمارے پولیو پروگرام کی کامیابی دیکھیے کہ لاہور،پنجاب میں پولیو کا کوئی کیس نہیں ہے۔ پچھلے دو سال سے پورا پنجاب پولیو فری ہے۔ لاہور میں دو انوائرمینٹل سیمپل پازیٹو آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی بچے میں وائرس پایا گیا۔ لیکن ہماری ٹیمز کی طرف سے بچوں کو ٹائم پر پولیو کے قطرے پلانے کی وجہ سے پولیو کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔
نوائے وقت: پنجاب  میں اب تک کتنی آبادی کو کورونا کی ویکسین لگائی جاچکی ہے؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: پنجاب کی 92 فیصد آبادی کو کورونا کی مکمل ویکسینیشن لگا دی گئی ہے۔اور 96 فیصد آبادی کی  ایک ڈوز لگی ہوئی ہے۔
نوائے وقت: ڈینگی کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں؟
ڈاکٹر الیاس گوندل:ہم اپنی ٹیمز کو سردیوں میں بھی لاروے کے خاتمے کیلئے متحرک رکھتے ہیں۔ مارچ اور اپریل ڈینگی کی بریڈنگ کا موسم ہے۔ اس میں گھروں کی صفائی کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ٹیمز کو ان ڈور سرویلنس کے دوران کولر کے اندر ہی لاروا ملتا ہے۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی پنجاب کی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو اکیلا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کنٹرول نہیں کرسکتا، تمام شہریوں،اداروں کو اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔
نوائے وقت:آبادی بڑھ رہی ہے،ہرہسپتال میں ایک ایک بیڈ پر دو یا دو سے زائد مریض دیکھنے کو ملتے ہیں، اس کا حل کیا سمجھتے ہیں؟
ڈاکٹر الیاس گوندل: امریکہ اور برطانیہ میں جس بندے کے پاس سوشل سکیورٹی نمبر نہیں ہوتا وہاں اس کا علاج نہیں ہوتا۔بدقسمتی سے ہماری آبادی میں ٹیکس دینے والے کی شرح کتنی ہے؟اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے سہولتیں ساری ملیں۔اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک باپ کے چار بچے ہوں اور وہ اپنے باپ کو کچھ نہ دیں، اور الٹا اسی سے کہیں کہ گھر کا خرچہ بھی آپ چلائو تو وہ بیچارا یا تو اپنے گھر کا سامان بیچے گا، یا قرضہ مانگے گا۔ نظام صحت کی بہتری کیلئے ہر شہری کو ٹیکس دینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن