گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین! سیاسی ماحول میں اس وقت جو پراگندگی دیکھنے کو مل رہی ہے اس اندوہناک صورت حال کا تصور کسی جمہوریت پسند نے ڈراﺅنے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔76سالہ پاکستانی تاریخ میں یوں تو بار ہا بار سیاست کی عصمت دریاں کی جاتی رہی ہیں۔بار بار جمہوری نظام کی بساط لپیٹی گئی بلکہ اے آر ڈی کے مرحوم چیئرمین اور پاکستان کے بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ کے بقول، پاکستان میں جمہوری نظام کو ایک پودے کی طرح گملے میں لگا دیا جاتا ہے اور جب یہ پودا اپنی جڑیں مٹی کے اندر مضبوط کرنی شروع کرتا ہے تو پودے کو پکڑ کر اوپر کھینچ لیا جاتا ہے۔اس طرح یہ جمہوریت کا پودا کبھی بھی اپنی جڑیں دھرتی کے ساتھ مضبوط نہ بنا سکا۔اور ہر بار غیرمرئی قوتوں کے تجربات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ قارئین! یوں تو پاکستان کے ماضی میں ہر الیکشن میں انتخابات کی رات ہی پوری دنیا میں جہاں الیکشن نتائج آنا شروع ہوتے ہیں۔پاکستان میں ہر الیکشن کے دن رات آٹھ بجے کے بعد ماردھاڑ، چھینا جھپٹی ،بیلٹ باکس کی چوری اور زبردستی ٹھپے لگانے کی اطلاعات اور فوٹیج آنا شروع ہو جاتی ہیں۔اور دوسری طرف ملک کے کروڑوں عوام جن نتائج کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، ا±ن کو ان کی خواہشات کے برعکس کچھ ایسے نتائج کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے جس کو وہ قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔امسال بھی 2024ء کے الیکشن میں الیکشن کا ڈراما رچایا گیا اس کھیل میں پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی جماعت نے حصہ لیا، ماسوائے تحریک انصاف کے کیونکہ الیکشن سے صرف چند روز پہلے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین کر، اسے اپاہج بنا کر الیکشن کے میچ میں دھکیل دیا گیا۔ یعنی کہ ایک پہلوان کے ہاتھ اور پاﺅں پیچھے بندھے ہوئے ہیں کہ مدمقابل پہلوان کو رنگ میں جوڈوکراٹے اور مارشل آرٹ کے سارے گ±ر آزمانے کی اجازت تھی۔
قارئین!یقینایہ کوئی میچ نما چیز تو ہو سکتی ہے مگر میچ نہیں۔الیکشن سے پہلے اس مخصوص پارٹی کے امیدواران کو گرفتار کیا گیا ،اٹھایا گیا اور اغوا کیا گیا اور ان سے بیان حلفی و قبولیت پریس کانفرنسز کے ذریعے دلوائے گئے اور بہت سارے امیدواران کو غائب ہو جانے پر مجبور کر دیا گیا۔اور ان کو ان کے انتخابی نشان کے بجائے کریلے، بینگن ،بچوں کے پنگوڑے،جوتے،مچھلی اور غیر شائستہ غیر تہذیب یافتہ الیکشن کے ماحول میں دھکیل گیا۔مگر پاکستان میں بننے والے تقریباً چارکروڑ سے زائد نوجوانوں کے ووٹوں نے اس کھیل کے منتظمین کی آنکھیں خیرہ کرکے رکھ دیں جب پانچ بجے سے نو بجے کے درمیان نوے فیصد الیکشن نتائج کے فارم 45امیدواران کے پولنگ ایجنٹس کو دیئے جا چکے تھے۔ تو یہ دیکھا گیا کہ آلو ،مولی ،بینگن والے امیدواران 266میں سے قومی اسمبلی کی 220نشستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو اچانک میچ ریفری کو ہوش آیا کہ یہ تو سارا کھیل ہی الٹ گیا۔ فارم 45کی اہمیت کو ان ان دیکھی طاقتوں نے فاش غلطی کرتے ہوئے نظرانداز کیا تھا،جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کے نظامِ عدل، الیکشن کمیشن اور غیر مرئی طاقتوں کی مداخلت کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیئے گئے۔اور اس وقت دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے ، آرگنائزیشنز اور جمہوری حقوق کی کمیٹیاں عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے مبصرین چیخ چیخ کر پاکستان میں اس کھیلے گئے کھیل کے ضابطوں پر حیرت زدہ ہیں۔اور اسی حیرانگی میں وہ ہر پاکستانی سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر یہی نتائج مقصود تھے تو پھر اس غریب ملک جس کی معیشت پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ، اس کھیل پر تقریباًسو ارب روپے کا زیاں کیوں کیا گیا ؟
قارئین!سچی بات تو یہ ہے کہ کھیل کھیلنے والے ہاتھوں کو یہ سب معلوم تھا کہ اس کھیل کے نتائج آنے کے بعد قومی اور بین الاقوامی ردعمل کیا ہوگا کیونکہ ایک بڑی سپر طاقت اس کھیل کے منتظمین کے کندھے تھپکا رہی تھی کیونکہ وہ عالمی طاقت جانتی ہے کہ اگر نتائج عوامی امنگوں کے مطابق آ گئے تو اس خطے میں اسے کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔اور اپنی اسی مذموم خواہشات کی تکمیل کے لیے اس عالمی قوت نے یوں تو پاکستان کو پچھلے 76سال سے محکوم بنا کر رکھا ہوا ہے لیکن دو سال پہلے اس مظلوموں اور محکوموں میں سے ایک توانا آواز ابھر کر سامنے آئی جس نے ببانگ دہل اس قوت کے عزائم کو للکارا اور ”ایبسلوٹلی ناٹ“کے الفاظ بول کر اس عالمی قوت کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا تھا۔اور وہ عالمی قوت اب اپنی خفگی اور شرمندگی مٹانے کے لیے اس ابھری ہوئی آواز کو کسی بھی قیمت پر دبانا چاہتی ہے۔قارئین!ان تمام حالات و واقعات کے بعد الیکشن کے نتائج کو متنازعہ بنا دیا گیا اور ملک کے پچیس کروڑ عوام سرکاری اعدادوشمار پر حیرت کنندہ ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے دیئے ہوئے ووٹوں کے نتائج اگر اسی طرح تبدیل کیے جانے ہیں اور اپنی مرضی اور خواہش کے نتائج سامنے لانے ہیں تو پھر ان کے ووٹ دینے کا کیا فائدہ؟
گذشتہ الیکشن میں پہلی دفعہ چار کروڑ کے قریب یوتھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی پہلی دفعہ استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے دن ٹرن آﺅٹ سرکاری اعدادوشمار کے بالکل برخلاف مختلف دیکھنے کو نظر آیا۔مگر سرکاری نتائج آنے کے بعد عوام کو جو رزلٹ قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ چار کروڑ نوجوان ووٹرز کتنے دلبرداشتہ ہوں گے کہ وہ زندگی بھر کبھی کسی پولنگ بوتھ کا ر±خ نہیں کریں گے۔مگر شاید یہی وہ مقاصد تھے جو ہماری اشرافیہ ،ہمارے مقتدر حلقے اور ادارے حاصل کرنا چاہتے تھے؟تاکہ نوجوان ووٹرز کو مایوس کیا جا سکے اور انہیں آئندہ کے الیکشن پراسس سے دور رکھا جا سکے۔قارئین!حالات کچھ بھی ہوں ہمیں تین چار باتوں کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ 1۔ہمیں اپنے نظامِ عدل کی سمتیں درست کرنی ہوں گی۔2۔ مقتدر قومی اداروں کی عزت اور احترام اور توقیر عوام کے اندر بحال کرنا ہو گی۔3۔ قومی سلامتی پر کسی قسم کے سمجھوتے سے گریز کرنا ہوگا۔4۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل نکالنا ہوگا، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے موجودہ دور کے جدید تقاضوں کے مطابق بدلنا ہوگا اور پاکستانیوں کو ایک مربوط اور بلاتفریق ہیلتھ سسٹم فراہم کرنا ہوگا۔اور ان سب کے لیے کسی ایسے گروہ یا پارٹی کی راہیں روکنا ہوں گی جن کے مقاصد قومی ترجیحات سے متصادم ہوں۔عوام کیا چاہتے ہیں یہ اس ٹورنامنٹ کے منتظمین کو یقینا پتا چل چکا ہوگا۔
فارم 45 اور 47 کے حوالے سے جو عمومی رائے سامنے آئی ہے اس کے بعد کیا نئی معرض وجود میں آنے والی حکومت ملک میں استحکام لا سکے گی۔حکومت بنانا بڑا کام نہیں ہے حکومت چلانا بہت بڑا کام ہے، جس طرح سے مبینہ طور پر انتخابی نتائج پر” نظر ثانی“ کی گئی اس کے پیش نظر حکومت کیسے چلے گی کتنا چلے گی ؟یہ سوال ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔؟