مضمون نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد
آج ہم سندھی بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں، پختون بھی ہیں ' بلوچی بھی ہیں اور کشمیری بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستانی نہی ہیں، اسی طرع ہم سنی بھی ہیں ' شیعہ بھی ہیں ' وہابی بھی ہیں اور دیوبندی بھی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ ہم مسلمان بس نام کے ہیں اور ہمارے وطن عزیز میں ہر طرف ایک افراتفری کا عالم ہے اور یوں لگتا ہے کہ کوئی کسی کا ساتھ نہی دینا چاہتا' اپنی اپنی کہے جاتا ہےاور اپنی سوچ کے آگے کسی کو اہمیت نہی دیتا جس سے ہمارا معاشرہ بکھرا بکھرا سا نظر آ رہا ہےاور ہر شخص بس اپنی مرضی کا مالک نظر آتا ہے اور بحیثیت مجموعی ہم انفرادیت میں گم ہو کر اجتماعیت کھوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں یعنی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والا معاملہ پوری طرع صادق نظر آتا ہے ہمارے آج کے پاکستان میں
بقول علامہ محمد اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
لیکن آج لگتا یوں ہے کہ ہماری ملت کی تقدیر غلط سمت میں کھوتی جا رہی ہے کیونکہ ہر فرد اپنی انفرادیت میں کھو کر خود پرستی' خود غرضی بلکہ نرگسیت کا شکار ہو کر دوسرے انسانوں کے لئے ناقابل قبول بنتا جا رہا ہے حالانکہ ہمیں علامہ اقبال کے اس پچھلے شعر کو اس شعر کے ساتھ ملا کر سمجھنا چاہئے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہی
موج ہے دریا سے بیرون دریا کچھ نہی
قارئین گرامی بلا شک و شبہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہے اور افراد منتشر منتشر سے ہوں تو پھر تباہی اقوام کا مقدر بن جاتی ہے اور اگر افراد ربط ملت رکھتے ہیں تو قومیں عروج حاصل کرتی ہیں علامہ محمد اقبال کے نزدیک اقوام کا عروج افراد کے اتحاد میں مضمر ہے تاریخ گواہ ہے کہ جب متحدہ ہندوستان کے گوشے گوشے سے ایک ہی آواز اٹھی،" لے کے رہیں گےپاکستان 'بن کے رہے گا پاکستان " تو پھر بظاہر انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان وجود میں آگئی
حاضرین گرامی پاکستان کی ریاست کے 4 بنیادی ستون عدلیہ' مقننہ'انتظامیہ اور میڈیا ہیں اور آج ان میں سے ہر ایک کی سمت مختلف ہےملکی حالات خراب ہونے کے ذمہ دار بھی یہی چار ستون ہیں کیونکہ یہ چاروں ستون اپنی اپنی ڈفلیان بجا رہے ہیں جس سے راگ تو پیدا ہی نہی ہو پا رہا البتہ بے ہنگم شور کی سی کیفیت نظر آتی ہے اور آج ہندوستان کے حوالے سے کہا گیا شعر پوری طرع ہم پر منطبق نظر آتا ہے
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
قارئین گرامی تحریک پاکستان کے مختلف عوامل میں سے علامہ اقبال کی اتحاد امت والی شاعری اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اتحاد' ایمان اور تنظیم کے نعرہ نے تحریک پاکستان میں روح انقلاب پھونک دی لیکن آج کل دشمن نے سوشل میڈیا کو ہمارے خلاف نیو کلیئر ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک طور پہ استعمال کر کے ہمیں اتحاد ' ایمان اور تنظیم سے بہت دور کر دیا ہے
بقول شاعر
وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
قارئین گرامی اختلاف رائے ایک جمہوری حق ہے اور جن معاشروں میں اختلاف رائے نہ ہو وہ معاشرے جمود کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں لیکن اختلاف رائے کے باوجود قومی پالیسیاں اور قومی حکمت عملیاں تو بنانا چاہئے جو آج ہمارے ملک میں مفقود ہیں لیکن تمام تر بظاہر خراب حالات کے باوجود میں نہ تو ہمارے ملک کے مستقبل سے مایوس ہوں اور نہ ہی پاکستانی قوم سے
بقول علامہ محمد اقبال
نہی ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اور نم کیا ہو اس حوالے سے بھی بقول شاعر
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام ہے
قارئین گرامی ہمیں بس دوبارہ سے اپنے مرکز اور محور یعنی اسلام سے جڑنا ہے اور اسلام ہی وہ یونیفائنگ بانڈ ہے جو تمام امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرو کر متحد کر سکتا ہے تو آئے ہم آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور تمام مسلمانوں کو ایک جسد واحد بنانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے قارئین گرامی یقین مانئے اگر ہم متحد ہو کر ایک امت بن جائیں تو پھر نہ غزہ کے مسلمانوں پر کوئی ظلم ہو سکے گا اور نہ ہی کشمیر میں بھارتی افواج درندگی کا مظاہرہ کر پائیں گی بلکہ دنیا پھر کے تمام مسلمان نہ صرف محفوظ ہو جائیں گے بلکہ وہ ترقی کی انتہاوں کو بھی بآسانی چھو لیں گے اور پھر ہماری ڈفلیاں خواہ الگ الگ بھی ہوں لیکن ہمارا راگ ایک ہی پیدا ہو گا اور وہ بہت حسین ہو گا اور ہماری کھوئی ہوئی عظمت رفتہ ایک بار پھر ہمیں حاصل ہو جائے گی