سندھ گیمز: 10 ہزارمیٹر کی دوڑ میں بے ہوش اتھلیٹ کو کاندھوں پہ لاد کر رکشہ میں ہسپتال پہنچایا گیا
حکومت سندھ کو اگر کھیلوں کے صوبائی مقابلے کرانے کا اتنا ہی شوق تھا تو پہلے اسے تمام انتظامات پر ہی نظر ڈالنی چاہیے تھی۔ یہ کیا کہ کسی ہنگامی صورتحال میں طبی امداد تک مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی انتظامیہ میں۔ اگر خدانحواستہ کوئی ایمرجنسی ہو جاتی تو کیا ہوتا۔ کیونکہ ابتدائی طبی امداد تک وہاں میسر نہ تھی۔ اب 10 ہزار میٹر کی ریس میں حصہ لینے والے ایک اتھلیٹ حمزہ دوران دوڑ بے ہوش ہو کر گر پڑے تو اسے بمشکل سائیڈ پر لا کر اسے پانی کا چھڑکاﺅ کیا گیا‘ پیروں پہ پانی ڈالا گیا مگر معاملہ سدھرا نہیں تو دو سکیورٹی گارڈ نے کاندھے پر لاد کر اسے باہر نکالا جہاں رکشہ میں ڈال کر سرکاری ہسپتال لے جایا گیا ہو گا۔ یہ منظر جس نے بھی دیکھا اس کا کیا تاثر گیا ہو گا ان سندھ گیمز کے حوالے سے۔ ایک عدد ایمبولینس کا بھی انتظام بروقت نہ ہو سکا۔ کیا ایدھی صاحب کے بعد سندھ میں فوری ہنگامی ایمبولینس سروس ختم ہو گئی ہے۔ کیا چھیپا والوں کی سروس بند ہو گئی ہے کہ کسی نے ان کو بھی فون کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ کیا ایسے ہوتے ہیں کسی بڑے ایونٹ کے انتظامات۔ یہ تو شکر ہے نوجوان اتھلیٹ کی حالت جلد سدھر گئی۔ امید ہے صوبائی حکومت سندھ گیمز کے کرتا دھرتاﺅں سے اس غفلت کی بابت ضرور پوچھ گچھ کرے گی۔ صرف ایونٹ کرانا ہی اہم نہیں ہوتا اس کے مکمل شافی انتظامات بھی اہم ہوتے ہیں۔ مگر ایونٹ کروانے کے شوقین حضرات سے اس بارے میں سوال کون کرے۔
٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن پاگل ہو گئے ہیں‘ نامزد وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کی ویڈیو وائرل
مروت کے مسئلے سے جان چھوٹی تو اب یہ ایک نیا تنازعہ سامنے آیا ہے۔ لگتا ہے پی ٹی آئی کے ستارے ہنوز گردش میں ہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں
رہا گردشوں میں ہر دم ”میری سیاست“ کا ستارہ
کبھی ڈگمگاتی کشتی کبھی ”چھین“ گیا کنارا
اب خیبر پی کے کے نامزد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں گل فشانی کرتے ہوئے انہیں پاگل قرار دے رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے اس کا مطل یہی ہو گا نہ انہیں پاگل خانے داخل کرایا جائے۔ کیا یہ زبان ایک اہم ترین عہدے کے امیدوار کی ہو سکتی ہے۔ کیا موصوف نہیں جانتے کہ خیبر پی کے میں مولانا کے ووٹروں اور سپورٹروں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ سینکڑوں مدارس ہیں مگر اس کے باوجود ان کا یہ بیان بتا رہا ہے کہ انہیں کسی کا خوف نہیں ہیں۔
٭٭٭٭٭
نومنتخب ارکان قومی اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں کے لیے ڈیڑھ ارب کے بجٹ کی سفارش
ابھی گاﺅں آباد ہی نہیں ہوا تھا کہ ڈاکو پہلے پہنچ گئے‘ والی بات اس وقت ہمیں سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ابھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان نے حلف ہی اٹھایا ہے اس کے ساتھ ہی ایسی خبر آ گئی ہے کہ غریبوں کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ افسوس یہ طبق صرف چودہ ہی ہوتے ہیں اگر 24 یا 40 بھی ہوتے تو وہ بھی روشن ہی نہیں روشن تر ہو جاتے۔ یہ خبر بجلی بن کر عوام پر گری ہے کہ پارلیمنٹ ارکان کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بجٹ میں اس سلسلے میں ان کروڑ پتی ارکان کو مزید مفتے کی خوشخبری ملے گی۔ رہے عوام تو ان کو نہ بجٹ سے پہلے آرام سے نہ بجٹ کے بعد کوئی اچھی خبر ملنے کی توقع ہے کیونکہ یہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے ارکان سب اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا عوام سے تعلق صرف ووٹ مانگنے تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ صرف اپنے فائدہ کا سوچتے ہیں۔ عوام جائیں بھاڑ میں اور ان سے کیے گئے وعدے جائیں چولہے میں۔ کس میں اتنی طاقت ہے کہ ان سے اس بارے میں سوال کرے۔ کوئی قانون کوئی طاقت انہیں وعدے وفا کرنے پر عوام کی خدمت پر مجبور نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صرف ووٹ مانگتے ہیں اور پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ سب کھاتے پیتے لوگ ہیں۔اگر مراعات دینی ہیں تو عوام کو دی جائے ان کے لیے زندگی آسان کی جائے ۔وہ بے چارے تو سسک سسک کر زندگی بسر کر رہے ہیں نہ ان کا حال اچھا ہے نہ ماضی اچھا تھا اور سچ کہیں تو مستقبل بھی بہتر نظر نہیں آ رہا کیونکہ وہاں بھی اشرافیہ اپنی بہتری کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ 24 کروڑ عوام کا واقعی اللہ حافظ و ناصر ہے۔ یہ بے چارے صرف دعائیں کرتے رہ جاتے ہیں۔ ثمرات کوئی اور سمیٹ کر لے جاتا ہے مگر یاد رکھیں حکمران۔
وہ یقینا سنے گا دعائیں میری
کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
٭٭٭٭٭
پاکستان اربوں ڈالر کے جرمانے سے بچ گیا
جی ہاں ورنہ ہماری معیشت جو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر پڑی ہے اسکی آخری سانسیں بھی کھنچ جاتیں اور کسی بھی وقت کوئی ب±ری خبر سننے کو ملتی جس کا ہماری ایک جماعت کے عہدیدار تواتر کے ساتھ اعلان کرتے پھرتے تھے مگر شکر ہے اس وقت بھی ہم ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئے۔ چاہے دوست ممالک کی طرف سے بھرپور مدد سے یہ ممکن ہوا۔ اب بھی شکر ہے کہ ہم نے اپنے دوست پڑوس ملک کو زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالا جو عرصہ دراز سے پائپ لائن مکمل نہ کرنے پر ہمیں بار بار جرمانے کی مدت میں اضافہ کر کے ہمیں بچاتا رہا۔ اب بالآخر حکومت نے منظوری دیدی ہے کہ اس منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے اور جلد از جلد اسے مکمل کیا جائے۔ یوں پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی کی ایک نئی راہ کھلے گی۔ ایران سے ہماری طویل سرحد ملتی ہے ہم وہاں سے قانونی طریقے سے تجارت کر کے لاکھوں ڈالر بچا سکتے ہیں۔ تیل اور گیس ارزاں نرخوں پر بنا کسی اضافی ٹرانسپورٹ اخراجات کے لے سکتے ہیں جس سے ان کی قیمتوں میں استحکام آ سکتا ہے۔ مگر امریکہ بہادر کی دوستی یا دباﺅ جو کہہ لیں کے سبب ہم ابھی تک ایسے اپنے مفادات کے فیصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اب یہ پائپ لائن کی تکمیل بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جس کے بعد گیس کے ساتھ پٹرول بھی ہم قانونی طریقے سے منگوا کر پٹرول مافیا کی کمر توڑ سکتے ہیں ایران سے پورے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں گوادر اور تربت کی طرح بجلی بھی سستے داموں دستیاب ہے وہ بھی لی جا سکتی ہے۔ سب سے قریبی ملک ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم ہوں گے اور ان علاقوں میں ترقی کی راہ کھلے گی ملک میں بھی گیس کے اور تیل کے بحران سے نجات ملے گی۔
٭٭٭٭٭٭