عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
تیرہ ماہ کی نگراں حکومت پنجاب کو جہاں ان گنت چیلنجز کا سامنا رہا وہیں صحت کے شعبے میں لاتعداد مسائل نے نگراں وزارت صحت کا استقبال کیا۔ پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں کی حالت غیر دیکھ کر یہ الفاظ نکلنا عام سی بات تھی کہ خدا کسی دشمن کو بھی سرکاری ہسپتال نہ لائے۔لیکن کون جانتا تھا کہ ایک نگراں حکومت ایسی بھی آئے گی جس کے ہاتھ کئی معاملات میں بندھے ہوں گے لیکن ان ہی بندھے ہاتھوں سے وہ نظام کی پیچیدگیوں سے یوں سلوٹیں ہٹائے گی کہ ان کا دور منتخب حکومت کے لیے ماڈل بن جائے گا۔
محسن سپیڈ پالیسی کے تحت نگراں وزیر صحت سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم اور وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے بنا کوئی نیا قانون تشکیل دیئے پنجاب بھر میں عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے ان مناصب پر کامیاب پروفیشنل ڈاکٹرز براجمان تھے جو کہ نظام صحت اور عوامی مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔
اب جبکہ تیرہ ماہ رہنے والی یہ نگراں حکومت 'اقتدار اگلی حکومت کو سونپنے جارہی ہے تو جاتے جاتے بھی اس نے پنجاب کے 100 سے زائد ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کا اہم کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔اس پروجیکٹ پر اربوں روپے کی لاگت آئی۔ لہذا آج نگراں وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے نوائے وقت نے ان تیرہ ماہ کی لاجواب کارکردگی پر خصوصی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
نوائے وقت: ایک سال سے زائد دور کی اس وزارت میں چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کیا کیا اقدامات اٹھائے گئے؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم: پاکستان میں غریب طبقہ کو معیاری صحت کی سہولیات کا ہر الیکشن میں نعرہ ضرور لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ہیلتھ کی مد میں بہت کم خرچ کر رہے ہیں۔ ہاں البتہ میڈیا جو مسئلہ ہائی لائٹ کرتا ہے،مثلا ڈینگی، کوویڈ وغیرہ تو اس کے لیے خاص فنڈ جاری کرنے پڑتے ہیں۔ در اصل ہمارے ملک میں میڈیا پالیسی بناتا ہے۔البتہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پروفیشنل ڈاکٹرز کو وزارت ملی۔ میں نے اندرون ملک اور بیرون ملک خدمات سر انجام دیں، وزارت ملنے کے بعد بھی اپنے مریضوں کو نہیں چھوڑا۔ ابھی بھی مریضوں کا معائنہ کر رہا ہوں۔ لہذا ہم جانتے تھے کہ لوگوں کے مسائل کیا ہیں لیکن نگراں حکومت ہونے کے ناطے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ہمارے پاس پی سی ون بنانے کی پاور نہیں تھی۔ہمیں قانون بنانے کا اختیار نہیں تھا۔ ہم نے جو کرنا تھا وہ موجودہ سسٹم کے اندر رہ کر ہی کرنا تھا۔ محدود اختیارات کے باوجود میں ہم نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔
ہم ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکتے تھے۔ لاہور کا آخری ہسپتال جناح ہسپتال تھا جو آج سے 35 سال پہلے بنا تھا۔ چار سے پانچ سال اس ہسپتال کا میں ہیڈ بھی رہا۔اس وقت لاہور کی آبادی 40 لاکھ کے قریب تھی اور اب 2 کروڑ ہو گئی ہے۔ آبادی اور بڑھتی بیماریوں کے لحاظ سے ہم نے نئے ہسپتال نہیں بنائے۔ ہر سال سردیوں میں نمونیہ سے ہزاروں بچے مر جاتے ہیں اور گرمیوں میں ڈائریا سے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہسپتال اتنے پرانے اور تباہ حال ہو چکے ہیں کہ وہاں نہ آرام دہ بیڈ ملتا ہے، نہ صفائی کا خاص خیال ہوتا ہے جبکہ باتھ روم جانے کا تو دل ہی نہیں کرتا۔لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہمارے پاس نئے ہسپتال بنانے کا اختیار نہیں ہے تو ہم موجودہ ہسپتالوں کو جدید سہولیات اور بہتر انفراسٹرکچر دیں۔اس سلسلے میں 113 ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی میں اضافہ کیا ہے۔جہاں بیڈز بڑھانے کی ضرورت تھی وہاں بیڈز بڑھائیں ہیں،ایمرجنسی وارڈ، کمرے،باتھ رومز سب کی اپ گریڈیشن ہوئی ہے۔ایک سے دو ہسپتالوں کی عمارت گرا کر نئی بنائی گئی کیونکہ اتنی خستہ حال عمارتیں تھیں کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ ممکن تھا۔مثلا لیڈی ولنگڈن پر پیسہ لگانا فضول تھا جب تک کہ اس عمارت کو دوبارہ سے نہ بنایا جاتا۔لیڈی ویلنگٹن کی عمارت زیر تعمیر ہے اور انشاء اللہ اگلی حکومت کے دور میں کام مکمل ہو جائے گا۔
ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن پر اب تک 80 سے 90 ارب روپے ہم لگا چکے ہیں۔یہ ہسپتال اتنے اچھے بن گئے ہیں کہ اگر مجھے بھی علاج کروانا ہو تو میں ان ہی ہسپتالوں میں سے کسی میں جائوں۔ہم نے تقریبا 100 Moduler آپریشن تھیٹر بنائے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر والے یہ آپریشن تھیٹر افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ہم نے عام آدمی کا سوچا۔ اب آنے والی حکومت ان کی Maintainanceکا خیال رکھے ورنہ یہ ہسپتال پھر سے خراب حالت میں چلے جائیں گے۔ہم جو نہیں کر سکے وہ یہ کہ پاکستان بھر کے ہسپتالوں کی تعداد دگنی کر سکتے۔ اگر یہ نہ ہوا تو ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹتے رہیں گے۔
ہم سکولز میں سکریننگ کرنا چاہتے تھے کہ بچوں میں تھیلیسیما، ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے امراض کی بروقت تشخیص ہو سکے۔ لیکن اس کے لیے قانون چاہیے تھا اور قانون بن نہیں سکتا تھا۔اس کے علاوہ امراض قلب کی بڑھتی شرح کو دیکھتے ہوئے ہم نے پرائمری اینجیو پلاسٹی شروع کی۔ یعنی مریض ہسپتال جائے تو بند شریان میں فوری سٹنٹ ڈال دیا جائے تاکہ مریض ہارٹ اٹیک سے بچ جائے۔ یہ طریقہ علاج ہے 2024 کاجبکہ ہم علاج کر رہے تھے 1992 کا۔
ہم نے بہت سارے مدر اینڈ چائلڈ کیئر سنٹر بنائے۔چلڈرن ہسپتال لاہور میں مریضوں کیلئے علاج گاہ کی گنجائش بڑھائی۔تقریبا سات ہزار بچے روزانہ کی بنیاد پر اٹینڈ کیے جا رہے ہیں۔نئی ایمرجنسی بنائی ہے۔پلے رومز بنائے ہیں۔بہت کام کیا ہے۔ لیڈی ایچیسن کو ری ویمپ کیا ہے لیکن لیڈی ولنگڈن کو مکمل طور پر بنا رہے ہیں۔پچھلے دور حکومت میں گائنی کا بہت بڑا ٹاور گنگا رام ہسپتال میں بننا شروع ہوا تھا۔ اسے ہم نے مکمل کیا۔ اسی طرح ملتان میں نشتر 2 ہسپتال زچہ بچہ کے لیے تھا لیکن اس کا کام بارہ تیرہ سال سے رکا ہوا تھا۔ جوبلی ٹائون لاہور میں دانتوں کا ایک بہت بڑا ہسپتال آج سے 30 سال پہلے شروع ہوا تھا لیکن اب کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا اسے بھی ہم نے مکمل کیا۔کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال کا کام ملتان اور راولپنڈی میں مکمل کروایا۔ہماری کوشش تھی کہ تمام رکے ہوئے پراجیکٹس مکمل کریں۔ہمارے بہت سارے خواب پورے نہیں ہوئے۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے اتنا بھی ہم سے کروا دیا۔
نوائے وقت: صحت کے سہولیات کو مزید بہتر بنانے کے لیے آپ نئی بننے والی حکومت کو کیا تجاویز دیں گے؟
ڈاکٹر جاوید اکرم: میری گزارش ان سے یہ ہوگی کہ وہ ہمارے تجربے سے ضرور کچھ سیکھیں۔ بھلے وہ وزارت صحت کسی سیاستدان کو دیں لیکن ڈاکٹرز کی ایسی ٹیم تشکیل دیں جنھیں مسائل معلوم ہوں اور ان مسائل کا حل بھی وہ جانتے ہوں۔پالیسی لیول پر ان سے مشاورت کریں۔ نچلی سطح پر جا کر دیکھیں کہ کون کون سی بیماریاں ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے پالیسی ترتیب دیں۔ہر دوسرا شخص شوگر اور بلڈ پریشر کاشکار ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو آپ کیسے ٹریٹ کر سکیں گے۔ آپ اس کی روک تھام پر کام کریں۔نمونیہ سے ہزاروں بچوں کی موت واقع ہوئی۔ اس کی وجہ فضائی آلودگی تھی۔ڈائریا کی وجہ گندا پانی ہے تو ہم یہ پالیسی بنائیں کہ کیسے فضائی آلودگی ختم ہو اور لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پرانی حکومتوں کے پراجیکٹس بند نہ کیے جائیں۔ ماضی میں یہ ہوتا آیا کہ پچھلی حکومت کے پروجیکٹس بند کر کے اپنے پراجیکٹس شروع کیے گئے تاکہ واہ واہ ہو۔ اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں انھیں ضائع نہ کریں۔ اچھے اور عوام دوست پراجیکٹس جاری رہنے چاہیے۔ہمارے ملک میں ڈائلسز کے لیے جتنی مشینیں ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ڈائیلسز کی مشینیں ہمیں چاہیے۔ہمارے پاس ایک لاکھ سے کم ڈائیلسز کی مشینیں ہیں جبکہ ضرورت 10 لاکھ سے زائد مشینوں کی ہے۔
نوائے وقت: جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں یک دم اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم: جب ہم خام مال ڈالرز میں درآمد کریں گے تو ادویات کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے۔ ہمیں پروڈکشن کی طرف جانا ہے۔ ہم خام مال بھی در آمد کرتے ہیں۔ انسولین تک ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ اگر ایک گولی 10 روپے میں بن رہی ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ ادویہ ساز وہ گولی 7 روپے کی دے دیں۔اگر ہم خود مختار ہو جائیں گے ان چیزوں میں تو ڈالر بڑھ بھی جائے ،فرق نہیں پڑے گا۔ ساری جماعتیں جب دہشت گردی کے معاملے میں ایک پیج پر آ سکتی ہیں تو عوام کی ہیلتھ کے لیے ایک کیوں نہیں ہوتیں؟ چائنا سب سے آلودہ ملک تھا لیکن ان کی پالیسیز کی وجہ سے آج وہ سب سے صاف ملک ہے۔ہم ایک ہی پالیسی بنا لیں تو بہت فرق پڑے گا۔