اسلام آباد (خبرنگار) ایوان بالا میں ارکان نے تقاریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا معاشی ماڈل ناکام ہو گیا ہے‘ ظلم کا نظام جاری ہے جسے اشرافیہ نہیں بدلنے دیتی۔ سینٹ نے مسیحی برادری کی شادیوںکے حوالے سے ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ کرسچین میرج ایکٹ میں ترمیم کے بعد نئے قانون کے مطابق شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی کی عمر 18سال ہوگی۔ ایوان بالا میں سینیٹر کامران مائیکل نے ازدواج عیسائیان بل 1872میں مزید ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہاکہ جو اصلی بل تھا جس میں عیسائیوں کی شادی کے حوالے سے عمر کی وضاحت کی گئی تھی تاہم موجودہ بل میں لڑکے اور لڑکی کی عمر میں فرق ہے اس میں ترمیم کی جائے اور دونوں کی عمریں 18سال کی جائیں۔ ایوان بالا نے حادثے میں زخمی افراد کو نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی لازمی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے زخمی افراد کو طبی امداد فراہم کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل 2023پیش کیا۔ نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر ندیم جان نے بل کی حمایت کی جس پر چیئرمین سینٹ نے ایوان سے رائے لینے کے بعد بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے پاکستان پینل کوڈ 1860میں ترمیم کے حوالے سے کریمنل لاز ترمیمی بل پیش کیا۔ وفاقی حکومت نے بھی بل کی حمایت کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے ایزمنٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ ایوان بالا نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور فیڈر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل متفقہ طور پر منظور کر لیے۔ سینٹ اجلاس کے دوران سینیٹر دلاور خان نے فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل پیش کیا۔ نگران وفاقی وزیر نے بل کی مخالفت کی تاہم اراکین سینٹ نے کثرت رائے کی بنیاد پر بل کو منظور کر لیا۔ سینیٹر فدا محمد نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کے حوالے سے بل پیش کیا۔ نگران وفاقی وزیر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے این او سی نہیں لی گئی ہے تاہم چیئرمین سینٹ نے اراکین سے رائے لینے کے بعد بل کو کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کر لیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے فوجداری قوانین میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور نے ایوان بالا کو بتایا ہے کہ حکومتی ملکیتی اداروں نے گذشتہ ایک سال کے دوران 730ارب روپے کے نقصانات کئے ہیں جبکہ منافع بخش اداروں نے 570ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی ملکیتی اداروں کے حوالے سے آنے والی منتخب حکومت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایوان بالا میں تحریک پر بات کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ حکومتی تحویل میں ادارے سالانہ 458ارب روپے غریب عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقم لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان اداروں کی صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے اور یہ پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معاشی ماڈل ناکام ہوچکا ہے، یہ ورلڈ بنک کی رپورٹ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ تبدیل ہوجائے مگر یہ اشرافیہ کی وجہ سے تبدیل نہیں ہورہا ہے اور یہ استعمار ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا مسلط کردہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ 10فیصد غریبوں کا ٹیکس 10فیصد مالدار افراد سے زیادہ ہے اور دولت غریب سے مالدار کی سمت جارہا ہے اور تمام رقم مافیا اور اشرافیہ کی سمت جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کے گریڈ 21اور 22کے افسران کے اثاثے ابھی تک ہمیں فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور 10ہزار ایف بی آر اہلکار اپنا ٹیکس کئی سالوں سے اپنا ٹیکس جمع نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا اشرافیہ سالانہ ٹیکس چوری، ایمنسٹی سکیم 70ارب ڈالر سے زائد رقم لے رہا ہے یہ ظلم کا نظام ہے‘ بڑا طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے 40فیصد سے زائد آبادی ہے اور پاکستان کے اندر غربت بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اوسط آمدنی کا اضافہ ایک فیصد ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں 4فیصد سے زائد ہے۔ سینیٹر ثانیہ نشتر نے تحریک پر بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ حکومتی ادارے سیاسی بھرتیوں اور غلط مینجمنٹ کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہر حکومت کے دور میں ایسے افسران کو ان اداروں پر مسلط کیا گیا ہے جو سیاسی عہدیداروں کے غلام ہوتے ہیں۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ ہماری سیاسی لیڈر شپ میرٹ کے برعکس بنائی جاتی ہے انہوں نے کہاکہ حکومتی اداروں کے نقصانات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے انہوںنے کہاکہ این ایف سی میں گولڈن ہینڈ شیک لینے والے ملازمین ابھی تک تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہاکہ حکومتی ملکیتی اداروں کا سالانہ خرچہ کھربوں میں ہے جو حکومت ادا کررہی ہے انہوں نے کہاکہ وہ کونسی طاقت ہے جو ان اداروں کی نجکاری میں رکائوٹ بن رہی ہے‘ تمام حکومتی ملکیتی وہ ادارے جو شدید نقصانات کا شکار ہیں کی نجکاری کرنی چاہیے سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ حکومتی ملکیتی اداروں کی فوری نجکاری کی جائے سینیٹرسیف اللہ ابڑو نے کہاکہ حکومتی ملکیتی اداروںکے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کسی قسم کی قابلیت نہیں ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ بجلی بنانے والے اداروں کو بجلی استعمال کی مد میں حکومتی کیسپٹی پے منٹ کی مد میں گذشتہ 10سالوں کے دوران 9ہزار288ارب روپے ادا کئے گئے جبکہ بجلی استعمال نہ کرنے کی مد میں کیپسٹی پے منٹ کی مد میں 8ہزار 900ارب روپے ادا کئے گئے‘ انہوں نے کہاکہ این ایچ اے کے دو منصوبوں ایم سکس موٹر وے کی بولی 306ارب روپے آئی تھی مگر دو سالوں کے بعد اس ٹھیکے کو مواصلات کے نگران وزیر نے کیسنل کردیا اور اب یہ منصوبہ دوبارہ ٹینڈر کرکے کم سے کم 800ارب تک پہنچ جائے گی۔ اگر ان منصوبوں کی تحقیقات کی گئیں تو اس ایوان کے 5سینیٹرز کو ڈی چوک میں لٹکانے کی سزا دی جاسکتی ہے‘ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور نے کہاکہ حکومتی تحویل میں چلنے والے اداروں کے نقصانات کیسے ختم کئے جائیں اس حوالے سے کئی تجاویز زیر غور ہیں تاہم اس کا فیصلہ یہ ایوان اور منتخب حکومت کر سکتی ہے انہوں نے کہاکہ 200سے زائد حکومتی ملکیتی ادارے ہیں ان اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ ایوان بالا نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بی اے کے نصاب سے مطالعہ پاکستان کو ختم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا ،چیرپرسن سینیٹر سیمی ایزدی نے نصاب میں مطالعہ پاکستان کو جاری رکھنے کے حوالے سے رولنگ دیدی سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے تحریک پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بیچلرز سطح پر اسلامک سٹیڈیز اور مطالعہ پاکستان کو ختم کرکے آئیڈیالوجی اور آئین پاکستان سٹڈی متعارف کرادیا ہے انہوں نے کہاکہ جو چیز ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آئی ہے اس کو ایچ ای سی کیسے ختم کر سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایچ ای سی مطالعہ پاکستان کے تمام ڈیپارٹمنٹس کو دوبارہ بحال کرے اور اگر آئیڈیالوجی آف پاکستان اور آئین پاکستان کی سٹڈی چاہتے ہیں تو اس کو موجودہ نصاب میں شامل کیا جائے‘ سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہاکہ ایچ ای سی کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے کہاکہ موجودہ سروے کے مطابق سکولوں سے باہر بچوں کا مسئلہ صوبوں تک محدود ہے اور 2023سے وفاقی دارلحکومت میں 71ہزار بچوں کو سکولوں میں لایا گیا ہے انہوں نے کہاکہ اس معاملے پر صوبوں کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت نے 3کروڑ 70لاکھ روپے مالیت پر مشتمل ایک پروگرام بھی اسی حوالے سے شروع کیا ہے جبکہ پورے ملک میں سکولوں سے باہر بچوں کو لانے کیلئے 25ارب روپے کی مالیت کا پراجیکٹ منظور کیا گیا ہے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہاکہ یہ بہت بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے آئین پر جو حملہ ہوا ہے وہ ایوان صدر سے ہوا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی جانے والی ایڈوائس بھجوائی گئی ہے جس پر وہ آئین کے تحت عمل کرنے کے پابند ہیں۔ ایوان بالا میں تحریک انصاف کے سینیٹرسیف اللہ ابڑو نے ملک کے تمام مسائل کی جڑ الیکش کمیشن کو قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن پر مخصوص نشستوں کے حوالے سے دبائو ڈالیں۔ فارم 45 ویب سائیٹ پر اپ لوڈ نہیں کئے ہیں انہوں نے کہاکہ اگر وہ الیکشن کمیشن کو یہ درخواست بھجواتے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ بعدازاں اجلاس منگل دن ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔