اسلام آباد (عترت جعفری) پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے اور صوبائی کابینہ بھی جلد تشکیل پا جائیں گی، جبکہ وفاق، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی حکومت سازی کا عمل تین مارچ تک مکمل ہو جائے گا، زیر تشکیل وفاقی حکومت کے لیے جہاں سیاسی مسائل اور ان سے کہیںزیادہ معاشی چیلنجز موجود ہیں، اس کے ساتھ کچھ ایسی مثبت علامتیں بھی ہیں جو نئی حکومت کے لیے تندہی سے مسائل پر توجہ دینے کا موقع فراہم کر سکتی ہیں۔ وفاق پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ہم خیال اتحادی حکومتیں ہوں گی، جبکہ کے پی کے واحد صوبہ ہوگا جہاں پر اپوزیشن کی حکومت ہوگی، اس سے قبل جب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اشتراک سے حکومت بنی تھی، اس وقت پنجاب،کے پی کے میں مخالفانہ حکومتیں تھیں ، گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مخالفانہ حکومتیں تھی تاہم بعد ازاں تبدیلی واقع ہوئی، ملک کے معروف معیشت دان ڈاکٹر ندیم الحق نے تجزیہ میں نئی حکومت کے لیے چیلنجز پر بات کی، ان کا کہنا تھا کہ افراط زر،گروتھ ریٹ میں اضافہ، صنعتوں کو چلانا، سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ، نوجوان آبادی کے لیے روزگار چیلنج ہے ان کا کہنا تھا کہ گروتھ کو سات سے اٹھ فیصد پر لے جانا پڑے گا تاکہ ہر سال تین ملین روزگار کے مواقع پیدا ہوں، نئے وزیراعظم کو حلف اٹھاتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ اجلاس میں بیٹھنا پڑے گا، ملک کی 80 فیصد جی ڈی پی ’ بابووں ‘ کے قبضہ میں ہے اس چھٹکارا پانا ہوگا، حکومت کے سائز کو کم کرنا ہوگا، ایکسچینج ریٹ کو اوپن کرنا ہوگا اور مارکیٹ کا نظام لانا ہوگا، کمپنیوں کو ترقی دینے کا موقع دیا جائے اور ریگولیشنز کو ختم کر دیا جائے، دریں اثنا ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور تین صوبوں کے اندر ہم خیال حکومتوں کے بننے اور ان کے درمیان ہم آہنگی برقرار رہنے کی صورت میں ان بڑے چیلنجز کو نپٹا جا سکتا ہے، سیاسی تنازعات کو طے کرنے کی ونڈو بھی کھولنا پڑے گی۔