لاہور (این این آئی) پاکستان کے 76سالہ دور میں ایک نئی اور منفرد تاریخ رقم ہو گئی، بھرپور سیاسی جدوجہد، انتھک محنت اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی پاکستان کی’’آئرن لیڈی‘‘ مریم نواز نے تخت پنجاب کی بڑی ذمہ داری سنبھال لی۔ عوام نے مریم نواز کو نواز دیاے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پہلی خاتون وزیراعلی پنجاب بننے والی مریم نواز جارحانہ سیاست کی علمبردار، لہجہ بھرپور، سیاسی حکمت عملی بھی شاندار ہے۔ مریم نواز نے تعلیمی اداروں میں اپنی تقاریر سے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ مریم نواز کو 2017 کے لئے دنیا کی 100بااثر خواتین میں شامل کیا گیا، پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے جارحانہ سیاست اپنائی۔ مریم نواز سڑکوں پر نکلیں تو کرائوڈ ’’پلر‘‘کہلائیں۔ سیاسی مخالفین کو جرات سے للکارا، مریم نواز والد کے ساتھ ڈٹ کھڑی ہوئیں اور سیاسی جانشین کہلائیں۔ مریم نواز نے جیل میں بی کلاس کی سہولتیں لینے سے انکار کیا اور عام قیدیوں کی طرح قید کاٹی، مریم نواز نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر مزاحمت کے بیانیہ سے پیچھے نہ ہٹیں، مریم نواز نے والدہ کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں ان کا لاہور میں ضمنی الیکشن بھی جیتا، ملک بھر میں ریلیاں نکالتی رہیں اور جلسوں میں حکمران وقت کو للکارتی رہیں۔ مریم اپنے والد کو واپس لائیں اور 2024 کا انتخابی محاذ بھی دبنگ انداز میں سنبھالا، مسلم لیگ ن نے مریم نواز کو عام انتخابات 2013 کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا۔ مریم نواز کو 22نومبر 2013کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا، مریم نواز نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور سکالر شپس دلائے، پارٹی کو یوتھ میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔1999 میں نوازشریف حکومت برطرف ہوئی تو مریم نواز پر بھی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، چارماہ تک گھر میں نظر بندی کے بعد سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا، نومبر 2011 میں نواز شریف نے انہیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا گرین سگنل دیا۔پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے جارحانہ سیاست اپنائی، 2018 کے انتخاب میں انہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگرانہیں اس سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال سزا سنا دی گئی، مریم نواز کو 10 سال کے لئے نااہل بھی قرار دیا گیا اور وہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب لیگی قیادت جیلوں میں تھی تو مریم نواز نے پارٹی کی انتخابی سیاست کا بھی محاذ سنبھالا، ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے والد سے تین سال نہ مل سکیں، اور تو اور اپنے بیٹے کی شادی میں بھی شریک نہ ہوسکیں۔