ممنوعہ کتاب کیس‘ اسلامی نظریہ کونسل‘ مختلف مسالک‘ اداروں سے معاونت طلب

اسلام آباد (اکمل شہزاد/ سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے ایک ممنوعہ کتاب ''تفسیر صغیر '' کی اشاعت کے حوالے سے ایک مقدمہ کے ملزم مبارک احمد ثانی کی ضمانت سے متعلق مقدمہ کے حکمنامہ کی مبینہ غلط تشریح اور اس سے ملک بھر میں افراتفری پھیلانے اور مایوس، شرپسند عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف زہریلا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے سے متعلق مقدمہ میں حکومت پنجاب کی اپیل کی سماعت کے دوران اس معاملہ میںدینی و شرعی تشریح کے لئے اسلامی نظریہ کونسل سمیت مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کے اداروں سے معاونت طلب کرلی ہے۔ عدالت نے  جماعت اسلامی پاکستان اور جمیعت علماء اسلام کو مقدمہ میں فریق بننے کے لیے درخواست جمع کرانے کی اجازت دے دی ہے۔ جبکہ اسلامی نظر یاتی کونسل، جامعہ دارالعلوم کراچی،جامعہ نعیمیہ کراچی، جمیعت اہل حدیث لاہور، قرآن بورڈ اور جامعہ المنتظر کو فیصلے کی نقول ارسال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر یہ ادارے چاہیں تو اس معاملہ کے آئینی اور مذہبی پہلوئوں پر عدالت کی معانت کرنے کے لئے تحریری رائے  بھی دے سکتے ہیں۔ عدالت نے مزید قرار دیا ہے کہ ملزم کی ضمانت کی منظوری کا معاملہ ملزم اور استغاثہ کے درمیان ہے اس لیے اس حد تک کسی تیسرے فریق کا موقف نہیں سنا جائے گا۔ تاہم اس معاملہ کے آئینی اور مذہبی پہلو ئوں پر مذکورہ درخواست گزاروں کے سوا بھی کوئی ادارہ یا فرد عدالت کی معاونت کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نظر ثانی کا مقصد غلطی کی درستگی کرنا ہوتا ہے، عقلِ کل کوئی بھی نہیں ہے، کم ازکم میں تو عقل کل نہیں ہوں، میں کہوں کہ آج تک کسی فیصلے میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی ہے ؟ تو یہ غلط ہو گا، غلطی اگر ہو گئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے، حلف کے مطابق ہم آئین وقانون اور شریعت کے پابند ہیں، ہمیں اس مقدمہ پر الجھنے کی بجائے اس کے آئینی اور مذہبی پہلوئوںکو دیکھنا ہے، میں آپ لوگوں سے نہیں اوپر والے سے ڈرتا ہوں، یہاں تو چھوٹ ہو جائے گی اوپر چھوٹ نہیں ہو گی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں؟ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے آپ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں ہم آپ کے ایمان پر نہیں اٹھاتے ہیں، امام مالک نے کہا تھا کہ اختلاف ایسے کرو کہ سامنے والے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں تو وہ بھی نہ اڑیں۔ دوران سماعت جماعت اسلامی کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا بڑا پن ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو بھی اس مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا ہم اس معاملہ کے آئینی پہلو پر جماعت اسلامی کا موقف بھی سنیں گے، تاہم مقدمہ کے میرٹس پر صرف متعلقہ فریقین  کا موقف ہی سنا جائے گا۔ شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کی ہدایت پر اس حوالے سے سپریم کورٹ کے وضاحتی بیان کو باآواز بلند پڑھ کر سنایا، تو فاضل چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس مقدمہ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء  کرام اور فریقین کو بھی نوٹسز جاری کر دیں توکیا اور بھی اچھا نہیں ہو گا؟۔ ہم انہیں عدالت کا تحریری فیصلہ بھجوا دیتے ہیں اگر وہ سمجھیں کہ اس میں کوئی دینی غلطی ہے تو جواب دے دیں گے۔ چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کی درخواست کے متن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے، شاید یہ مناسب نہیں۔ انہوںنے کہا کہ وہ تمام لوگ اور ادارے جو صرف اسلامی احکامات کی حد تک معاملے پر نظر ثانی چاہتے ہیں، وہ اپنی تحریری رائے دے سکتے ہیں۔انہوںنے شوکت عزیز صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میرا فیصلہ پڑھا ہے، میرے وہ تمام فیصلے جمع تو کریں جن میں، میں نے مختلف مسائل پر اسلامی احکامات کے حوالے دیے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ماحول کو تباہ کیا جارہا ہے، ماحولیات پر اسلام کیا کہتا ہے؟۔ جب سکولوں کو تباہ کرتے ہیں اور خواتین کو پڑھنے نہیں دے رہے، پھر کیوں عدالت میں نہیں آتے؟۔ جب خواتین کو پڑھنے نہیں دیتے تو اصل میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، پہلا لفظ جو اترا وہ اقراء ہے۔

ای پیپر دی نیشن