دو روز قبل اچھرہ بازار میں عربی خطاطی والا لباس پہننے والی خاتون کے لیے بہت مشکل صورت حال پیدا ہوئی، لوگوں نے سمجھا کہ خاتون شاید کہیں توہین مذہب کی مرتکب ہوئی ہیں۔ پیشتر اس کے کہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوتی اے ایس پی شہر بانو موقع پر پہنچی اور کمال ذمہ داری، سمجھداری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خاتون کو وہاں سے نکال کر لے جانے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس واقعے کی مختلف ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں ایک مرتبہ پھر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بحثیت قوم ہم جس انداز میں مذہبی معاملات پر ردعمل دیتے ہیں وہ ہماری مجموعی سوچ اور مذہب کے حوالے سے معلومات پر سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے مذہبی معیار دوسروں کے لیے اور ہیں جب کہ ہم اپنے لیے ہر وقت مذہبی معاملے میں نرمی کے تلاش میں رہتے ہیں اور دوسروں کے معاملے میں بہت ہی بے رحم ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو ایک مرتبہ پھر انتہائی تکلیف دہ مناظر دیکھنے کو ملے ہیں۔ لوگ بغیر کچھ سمجھے اکٹھے ہوتے ہیں اور جیسے جیسے جمع ہونے والوں کی تعداد بڑھتی ہے ویسے ویسے ہی سمجھ بوجھ، تحمل مزاجی اور شعور کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ نفرت اور بدلے کے جذبات حاوی ہوتے ہیں اور پھر لوگوں کی عقل جواب دے جاتی ہے اس کے نتیجے میں ایک سانحہ رونما ہوتا ہے، گھر جل جاتے ہیں، قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، بین الاقوامی سطح پر ہمارا پرتشدد اور شدت پسند چہرہ دنیا کے سامنے جاتا ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد ہم وضاحتیں دیتے رہتے ہیں اور کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ مذہب کے معاملے میں بالخصوص مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو تحمل مزاجی کا درس بھی دے اور لوگوں کو اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ یہ عربی خطاطی والا لباس پہنے صرف ایک خاتون اپنا چہرہ نہیں چھپا رہی تھی بلکہ وہ بحثیت قوم ہم سب کا چہرہ بے نقاب کر رہی تھی۔ کاش کہ ہم تھوڑا بڑے ہو جائیں، تھوڑا سمجھدار ہو جائیں، تھوڑا ذمہ دار ہو جائیں، ہماری مذہبی سمجھ بوجھ نعروں اور فلاں نے کہا، فلاں نے کیا، فلاں کا حوالہ ہے سے آگے نکلیں اور کچھ وقت مذہب کو سمجھنے پر بھی لگائیں۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جتنے لوگ مذہبی شخصیات کو نشانہ بنا رہی ہے، تنقید کر رہی ہے اگر اس میں سے مناسب تعداد بھی مذہبی معلومات کو بڑھانے اور مذہب کو سمجھنے پر وقت لگائیں تو یہ ممکن نہیں کہ بہتری نہ ہو۔ دراصل ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے سب کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ علماء کو تو ہر وقت برا بھلا کہنا سب اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ کبھی کوئی نہیں سوچتا کہ ہم انہیں کیا دیتے ہیں اور ہم خود مذہبی تعلیمات کے حوالے سے کتنا سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں۔ چونکہ ہم اپنی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور دوسروں کی غلطیاں نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں، اپنی خامیوں کو دور نہیں کرنا چاہتے اور دوسروں کو خامیوں کے ساتھ زندہ دیکھنا نہیں چاہتے، عدم برداشت اور شدت پسندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ بات اگر صرف قرآن کریم کے حوالے سے ہی ہو اور اگر ہم اپنی زندگی کے معمولات دیکھیں تو یاد رکھیں ہم ہر وقت قرآن کریم کی آیات کے خلاف کام کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لعنت اللہ علی الکذبین
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت
انہ لا یحب المستکبرین
اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
انہ لا یحب الخائنین
اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں، فساد پھیلانے والوں کو بھی پسند نہیں فرمایا، کیا ہم روزانہ کی بنیاد پر ہر وقت یہ کام نہیں کرتے، کیا مال جمع کرنے والوں بارے قرآن کریم کے احکامات کسی سے ڈھکا چھپے ہیں، کیا یتیموں کے مال بارے، ناپ تول بارے، غیبت بارے ، لوگوں سے کیسے پیش آنا ہے، کیسے بات کرنی ہے، کیا ہم سب اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اگر نہیں تو ہم کس کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ ذرا بیٹھیں اور سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم روز مرہ کے معاملات میں تاجدار انبیاء خاتم النبیین نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں اگر نہیں کرتے تو کس کی سنتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ذرا وقت نکالیں اور سوچیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ یقینا ہمیں اپنے ہر سوال کا جواب اپنے ہی اعمال میں ملے گا۔
بہرحال جہاں تک تعلق اے ایس پی شہربانو کا ہے انہوں نے اس معاملے کو اچھے انداز میں سنبھالا، پاکستان بھر میں ان کی تعریف ہو رہی ہے، پاکستان سے باہر بھی پولیس آفیسر شہربانو نے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق لاہور کے ایک علاقے میں پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورتحال کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر خاتون شہری کو مشتعل ہجوم سے بحفاظت بچا کر لے جانے والی اے ایس پی شہر بانو نقوی کو پنجاب پولیس کی طرف سے بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر قائد اعظم پولیس میڈل سے نوازنے کیلئے حکومت پاکستان کو سفارشات بھجوائی جا رہی ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو خود دیکھنا اور یہ طے کرنا ہے کہ کیا صرف شدت پسندی کا اظہار ہی مذہبی ہونے کی یا مذہب سے محبت کی دلیل ہے۔
آخر میں بشیر بدر کا کلام
آنکھوں میں رہا، دِل میں اْتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مْسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا ،سب چونک پڑیں گے
اِک عْمر ہْوئی دِن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
یاروں کی مْحبت کا یقیں کر لِیا میں نے
پْھولوں میں چْھپایا ہْوا خنجر نہیں دیکھا
محبْوب کا گھر ہو کہ، بزرگوں کی زمینیں !
جو چھوڑدِیا، پھر اْسے مڑکر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہْوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتّھر نہیں دیکھا
یہ پْھول مجھے کوئی وِراثت میں مِلے ہیں
تم نے مِرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھّا ہے، کہ نگینے سے جْڑے ہیں
وہ ہاتھ، کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہْوں، اْس نے مجھے چْھوکر نہیں دیکھا