میرے پاس اگرچہ میری آبائی ذاتی لائبریری یہاں لاہور میں نہیں کہ میں پیر سید مہر علی شاہ کے بارے مشتے نمونہ ازخیر ندارے بھی پیش کر سکوں تاہم جب بھی مجھے شیخ اکبر حضرت ابن عربیؒ کی یاد آتی ہے اور الفتوحات المکیۃ خصوص الحکم اور ترجمان الاشواق کے موضوعات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں‘ تو گردش افلاک و سرور لیل و نہار کے ساتھ میرا انگ انگ رقصاں ہوتا ہے‘ اور میں ماسوا اس کے کچھ نہیں کہہ سکتا ع رنگے کہ فی رقصا نیم اے یار می رقصم اے یار تو مجھے جیسے نچاتا ہے میں ویسے ہی ناچ اٹھتا ہوں‘ اور خدا گواہ ہے کہ ابن عربیؒ کے ذکر کے ساتھ ہی مجھے پیر طریقت غواص غوامض ابن عربی پیر سید مہر علی شاہؒ کی محبت و عقیدت گھیر لیتی ہے‘ ان کا شجر علمی‘ ان کی روحانی رسائیاں اور خلاق ذہانت بے پاں تھی اورآج بھی ہے‘ اس لئے کسی کا راہو دانش ان سے آگے نہیں نکل سکا‘ خانقاہی نظام تکوینی نظام کے سنگ پاسنگ ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ جب تک ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے رہے‘ ہماری باطنی آنکھیں روشن رہیں‘ علامہ محمد اقبالؒ جو خود علامہ شرق و غرب کا مجمع تھے‘ جب بھی کسی علمی و ذہنی مشکل میں گرفتار ہوتے تو حضرت پیر مہر علی شاہ کی خدمت میں عرض گزارتے اور استفسار کرتے اور چشمہ گولڑویہ سے اپنی تشنگی دور کر لیتے‘ فتنہ قادیانیت کو فرو کرنے کے لئے پیر صاحبؒ نے متنبی غلام احمد قادیانی علیہ ما علیہ کے دست راست اور انتہائی جید عالم حکیم نور الدین کے ساتھ جو سوال و جواب کئے‘ ان میں پیر صاحب نے اس کے ایک حوالے کی یہ کہہ کر تغلیط کی کہ لگتا ہے‘ آپ نے وہ کتاب پڑھنا تو کجا دیکھی تک نہیں اور پھر خود عبادت اور حوالہ نقول فرما دیا‘ آپ نے حکیم کو ایسے مسکت جوابات دئیے کہ وہ لاجواب ہو گیا۔ لیکن من یضلہ فلا ھادی لہ کے مصداق حکیم لئیم کی حکمت چاروں شانے چت رہی‘ رد قادنیت میں آپ کی کتابیں حرف آخر ہیں‘ اور ہر راہ سے بھٹکے ہوئے کیلئے بررقہ کا کام دیتی ہیں‘ گولڑہ شریف کی خاک سے آج بھی ان کے علم و عمل اور روحانیت کی مہک آتی ہے ع
بہر زمیں کہ نسیمے ز زلف او لیوزد...... ہنوز از سراں بوئے عشق مے آید
جہاں جہاں سے ان کی زلف کو چھو کر نسیم گزری ہے...... اس زمین سے آج بھی عشق کی خوشبو آتی ہے
جب وہ الفتوحات المکیۃ کا درس دیتے تو صرف صاحبان علم ہی کو سننے کی اجازت دیتے‘ اور کسی عام آدمی کو دائرہ درس میں داخل نہ ہونے دیتے کیوں کہ شیخ اکبر کی کتنی باتیں ایسی ہیں کہ وہ بظاہر درست معلوم نہیں ہوتیں یا وہ عام فہم نہیں ہوتیں اور کوئی عام آدمی ان سے گمراہ ہو سکتا ہے‘ آپ طبقہ خواص کی کوئی بات طبقہ عوام کے سامنے بیان نہ فرماتے‘ مثال کے طور پر الفتوحات کا یہ جملہ کیسا ہے ’’الرب عبد ان تنزل و العبد رب ان ترقی‘‘ ہم احتیاطاً اس کا ترجمہ نہیں دے رہے کہ مبادا کوئی عامی اس سے غلط مطلب اخذ نہ کر لے‘ لیکن حضرت ایسے جملوں کو جب کھول کر بیان فرماتے تو توحید محضہ اس میں سے ظاہر و باہر ہو جاتی‘ ۔پیر سید مہر علی شاہ سچے عاشق رسول تھے‘ پوٹھاری زبان میں ان کی شاعری ضرب المثل ہے۔ ملاحظہ ہو حضرت کا شہرہ آفات کلام ع
اج سک متراں دی ودھیری اے..... کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے.... اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
مکھ چند بدر شعشانی اے..... متھے چمکدی لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے..... مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن..... چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں..... جانان کہ جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں....... جس شان تو شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ ما اجملک..... ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا....... گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں