چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بنچ نے حج انتظامات میں ہونے والی کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا کہ ہمیں سرونٹ ایکٹ کی رو کے مطابق کام کرنا چاہیئے تاکہ سب میں آئین اور قانون پر عمل درآمد کا تصور مضبوط ہو۔ کنٹریکٹ پر تقرریوں سے جونیئر افسروں کی ترقی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں،ملک میں امن ومان کے مسئلے کی بڑی وجہ اہل افسروں کو ترقی نہ دینا ہے۔ ہمیں اب اقربا پروری کا تقرر ختم کرنا ہوگا، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ اس سلسلے میں چاروں صوبائی سیکرٹریز اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو آگاہ کریں تاکہ کنٹریکٹ پر تقرریوں سے شفاف نظام مضبوط ہو سکے۔ عدالت نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وہ کنٹریکٹ ملازمین،پولیس اور ایف آئی اے میں او ایس ڈی بنائے گئے افسران کی خبرسنیں اور عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کنٹریکٹ پر تقرریاں نہ کرنے کا اصول پولیس اور ایف آئی اے سمیت تمام دیگر محکموں پر بھی لاگو کیاجائے۔ اٹارنی جنرل مجاز اتھارٹی سے اس حکم کی روشنی میں بات چیت کرکے عدالت کو آگاہ کریں گے۔ اس سے قبل وزیر اعظم کے بیٹے کے دوست زین سکھیرا کا تحریری بیان سپریم کورٹ مںپیش کیا گیا جس میں انہوںنےکہا کہ مدینہ اور مکہ کے ہوٹلوں میں وہ اپنے خرچے پر ٹھہرے تھے۔ انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ رکن قومی اسمبلی عمران شاہ جان بوجھ کر اُن کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کسی کو یہاں پر پگڑی اچھالنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اگر یہ الزامات ثابت نہ ہوئے تو عمران شاہ کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے نئے تحقیقاتی افسر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے جاوید علی بخاری کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سابق وفاقی وزیر حامد کاظمی کی کرپشن کے ثبوت ملے ہیں لیکن آپ نے کارروائی نہیں کی۔ رپوٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ایک شخص کے اکاؤنٹ میںننانوے لاکھ روپے آئے اور اگلے روز ہی نکال لیئے گئے،اگر ایسا ہے تو ایف آئی اے نے اس اکاؤنٹ میں پیسے بھیجنے والے اور نکلوانے والے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ بعد میں کیس کی مزید سماعت دس فروری تک ملتوی کردی گئی۔