بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلواتا ہے۔ جہاں سوا ارب کے لگ بھگ لوگ بستے ہیں۔ بھارت نے بڑی خوبصورتی سے اپنے مکروہ جارحانہ چہرے پر یہ جمہوریت کا نقاب اوڑھا ہوا ہے ورنہ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ عوام کی رائے کو اولیت دی جائے اور اس پر عمل کیا جائے مگر بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا یہ دیو استبداد جس بے رحمی کے ساتھ جمہوریت کی قبا چاک کر رہا ہے وہ اقوام عالم کے سامنے ہے۔
تمام تر دعوﺅں کے باوجود آج بھی بھارت میں میزو رام، ناگالینڈ، آسام تریپورہ اور کشمیر میں عوام کی اکثریت زبردستی بھارت کی غاصبانہ پالیسیوں کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اس نام نہاد جمہوریت کا نہ تو دل پسیجتا ہے نہ وہ عوام کے چیخ و پکار پر آزادی کے نعروں پر کان دھر رہی ہے۔ ان تمام تحاریک آزادی میں مسئلہ کشمیر اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ یہ مسئلہ 1947ءکے تقسیم ہند پلان کے بعد بھارتی جارحانہ عزائم اور توسیع پسندی کی وجہ سے پیدا ہوا جب بھارت نے عوامی رائے اور تقسیم ہند کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر پر جبری تسلط کی خاطر اپنی افواج اس وقت کشمیر میں داخل کیں جب وہاں کے عوام ڈوگرا راج سے آزادی کیلئے کوشاں تھے۔ جب پاکستان سے قبائلی اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کیلئے آگے بڑھے تو بھارت نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا تو پاکستان نے اقوام متحدہ کی طرف سے امن اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حال کی خاطر جنگ بندی تسلیم کر لی۔ اس وقت بھارت کے وزیراعظم نہرو جو اپنے کو سب سے بڑی جمہوریت کا نمائندہ کہلاتا تھا اس نے وعدہ کیا کہ بھارت امن بحال ہوتے ہی ریاست جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کرا دے گا مگر افسوس کہ 65 برس گزرنے کے بعد بارہا اپنے وعدوں کے باوجود بھارت کی نام نہاد جمہوری قیادت آج تک اس وعدے پر عملدرآمد نہیں کر سکی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار خود جمہوری آواز کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ پاکستان سے 3 جنگوں اور مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں افراد کی شہادتوں اور آزادی کی تحریکوں کو بزور طاقت کچلنے کے باوجود اگر بھارت اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے تو یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈھونگ ہے، فراڈ ہے ڈیڑھ کروڑ کشمیری آج بھی لاکھوں جانوں اور اربوں روپے کی مالی قربانیوں کے باوجود اقوام متحدہ سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ان پر عمل کے اپنے وعدے کو پورا کرے اور کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے تاکہ وہاں کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں جو ابھی تک بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا نہیں ہو سکا۔
ان حالات میں جب میزو رام، ناگالینڈ، آسام، تری پورہ میں بھی جہاں کے عوام بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں کشمیر سمیت ان علاقوں میں خونریزی جاری ہے۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ بھارت کی نام نہاد جمہوری حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب کرے اور اس پر دباﺅ ڈالے کہ وہ وہاں کے عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے۔ 7 لاکھ بھارتی افواج کشمیر میں ہر طرح کی درندگی کرکے دیکھ چکی ہے وہاں کے عوام کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے اور آج بھی اقوام متحدہ کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ کب یہ ادارہ کشمیریوں کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دلواتا ہے جو بھارت نے غصب کر رکھا ہے۔