آج پاکستان معاشی طور پر تباہی کے اس دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں مستقبل میں یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو ڈیفالٹ اس کا مقدر بن جائے گا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے سربراہ جیفری فرینک نے یہ کہہ کر پاکستان کے ذمہ قرضہ معاف اور ری شیڈول کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ جب تک پاکستان سے کرپشن، بدانتظامی، بیڈ گورننس اور بجلی چوری ختم نہیں ہو گی۔ معیشت کبھی بھی مستحکم نہیں ہو گی۔ لہٰذا جب تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور صوبے آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کیلئے قرضہ لینے کیلئے اس بات پر متفق نہیں ہوتے ہیں کہ بجلی پر سبسڈی کو ختم کر دیا جائے، ٹیکسوں پر ہر طرح کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔ روپے کی قیمت میں مزید کمی کی جائے اور آئی ایم ایف کی ہدایات کیمطابق معاشی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کرے تو تب آئی ایم ایف پاکستان کیلئے نئے قرضے کا اجرا کر سکتا ہے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور حکومت کی مشترکہ معاشی حکمت عملی پر متفق ہو جائیں تاکہ پاکستان معاشی بحران سے باہر آ جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کب تک ہماری حکومتیں اندرونی اور بیرونی قرضوں یا خسارے کی سرمایہ کاری کے ذریعے حکومتی اخراجات پورا کرتی رہیں گی اور پاکستانی عوام کا جینا دوبھر رکھیں گی۔ پچھلے سال ہمارے اوپر ملکی اور غیرملکی قرضوں کا بوجھ 14.4ارب روپے یعنی جی ڈی پی کا 65.3فیصد تھا جو نوائے وقت کے اداریے کیمطابق اب بڑھ کر 15.1ہزار ارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے اور یہ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے 68فیصد ہے۔ حالانکہ سٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت کسی بھی صورت میں ملکی و غیرملکی قرضوں کی شرح تناسب جی ڈی پی کے 60فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہئے مگر یہ موجودہ حکومت کی انتہائی بے حسی اور مالیاتی بددیانتی کی مثال ہے کہ اس نے بے دریغ قرضے لیکر ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت کے چار سالوں سرکاری قرضے 6924 ارب لئے گئے جبکہ قیام پاکستان سے لے کر 60 سالوں تک سرکاری قرضے 4802ارب لئے گئے اور صرف 48ماہ میں ان قرضوں میں 6924ارب روپے کا اضافہ ہوا اور چند ماہ میں مزید بڑھ کر ان کا بوجھ 15000ارب روپے تک اس ناتواں قوم کے کندھوں پر بڑھ گیا ہے۔ جون 1999ءکے بعد سے اب تک پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں میں 120فیصد اضافہ ہوا ہے جب بیرونی اخراجات 30.2ارب ڈالرز تھے۔ 2008ءمیں یہ بڑھ کر 38.8ارب ڈالرز ہو گئے اور اب شیطان کی آنت کی طرح انکے حجم میں 26.9ارب ڈالر کے اضافے سے اس کا مجموعی حجم 65.7ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے مگر بدقسمتی سے ان قرضوں کے اثرات نہ تو ہمیں ملک کی تعمیر و ترقی میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان سے ادائیگیوں کے توازن میں کوئی بہتری دکھائی دی گئی۔
قارئین! آج ہر باشعور پاکستانی یہ سوچنے پر حق بجانب ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لئے گئے قرضوں کا کہاں استعمال ہوا۔ ترقی کے کون سے مینار بلند ہوئے۔ ملکی ادارے کیوں زبوں حالی کا شکار ہوئے۔ اتنے قرضوں کے باوجود بھی یہ ادارے مسلسل خسارے میں کیوں ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ یہ اربوں ڈالرز حکمران اشرافیہ کے کروڑوں ڈالرز جو غیرملکی بینکوں میں پڑے ہیں اس کا ذریعہ کمائی کہیں یہی قرضے کے خورد برد رقومات تو نہیں ہیں۔
سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کیمطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں حکومت پاکستان 770بلین روپے کے قرضے کمرشل بینکوں سے لے چکی ہے اور جس رفتار سے بجٹ کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق یہ رواں سال کے اختتام پر جی ڈی پی کے 7.5فیصد تک جا پہنچے گا اور آمدنی اور اخراجات میں ایک بڑا خلا 1624ارب روپے کا ہوا ہو گا۔ اگر حسب معمول یہ خلا روزانہ 2ارب روپے کے کرنسی نوٹ چھاپ کر پورا کیا جائیگا تو پھر ہماری کلی معاشیات (Macro Economy)کا مکمل ڈھانچہ فلک بوس ہو جائیگا۔ ابھی تک جو ہماری معیشت کی کچھ صورت برقرار ہے وہ ہمارے تارکین وطن کی طرف سے بھجوائی جانیوالی 13بلین ڈالرز کی سالانہ غیرملکی ترسیلات ہیں وگرنہ ہماری موجودہ حکومت کی بدانتظامی، نااہلی اور نان پروفیشنل مالیاتی منیجرز نے ہر طریقے سے معیشت کو ناکام و ناکارہ بنا دیا ہے۔ مشرف کے دور حکومت میں معاشی ترقی شرح نمو 6.5فیصد سالانہ تھی جو آج گر کر بمشکل 3.8فیصد رہ گئی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح نمو 6.2فیصد بھارت میں 7.7 فیصد سری لنکا میں 6.1فیصد اور چین میں 9.7فیصد سالانہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاءکے تمام ممالک سوائے پاکستان کے معیشت کی مضبوطی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں مگر پاکستان میں وسائل کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے اور جو تھوڑا بہت بچتا ہے وہ حکومتی مشینری کی نذر ہو جاتا ہے اور جو آٹے میں نمک کے برابر رقم تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کیلئے مختص ہوتی ہے وہ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، واپڈا کے انتظام و انصرام کرنیوالے اعلیٰ عہدیداران اور ملازمین خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں مگر ادارے ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود خسارے میں ہیں۔ واپڈا کے ڈیجیٹل میٹرز کی رفتار 35فیصد زیادہ ہے اسکے اعلیٰ عہدیدار آئی پی پی ز (IPPs) سے کم بجلی کے یونٹس گرڈز میں شامل کرتے ہیں مگر ادائیگی زیادہ یونٹس کی کرتے ہیں اور اپنا کمیشن وصول کر لیتے ہیں آج ہمارے صنعتی اداروں کو گیس اور بجلی دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے تمام تر صنعتی یونٹس گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ لاہور میں 4سو اور فیصل آباد میں 6سو کارخانے بند ہیں اور ڈیڑھ کروڑ افراد بیروزگاری کے خدشے کا شکار ہیں مگر حکمران روم کے بادشاہ نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایک عام شخص کیلئے خورد و نوش کی ایک باسکٹ پر 785 روپے ماہوار خرچ آتا تھا جو کہ پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اب یہ خرچ 18.5روپے ماہوار فی کس ہو گیا ہے۔ 2004-05ءسے لے کر 2012-13ءتک گندم 128فیصد، چینی 161فیصد دالیں 194فیصد، سبزیاں 151فیصد گھی اور خوردنی تیل 158فیصد اور گوشت کی قیمتوں میں 169فیصد اضافہ ہوا ہے۔
قارئین! آج ایک عام پاکستانی نے گندم اور چاولوں کا استعمال 3فیصد دالوں کا استعمال 32فیصد چینی کا استعمال 7فیصد اور گوشت کا استعمال 17فیصد کم کر دیا ہے۔ ایک شخص جو کبھی 2250کلوریز خوراک اوسطاً حاصل کرتا تھا اب وہ محض 1700 کلوریز کی خوراک اوسطاً حاصل کر رہا ہے۔ آج ہر تیسرا پاکستانی غربت اور افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے۔ 5کروڑ 87لاکھ افراد غربت کی کم از کم لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو 1.25ڈالر روزانہ ہے۔ اب ہم جس گرداب میں پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی ایسی معاشی حکومت برسراقتدار آئے جو پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہو وگرنہ آئندہ چھ ماہ میں ہمیں آئی ایم ایف کو 2ارب ڈالرز واپس کرنے ہیں۔ اس دوران انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال سے سرمایہ کاری کا عمل رک جائیگا اور خدانخواستہ دوبارہ یہی حکمران ٹولہ برسراقتدار آ گیا تو ملکی معیشت پر اسکے اثرات انتہائی منفی ہونگے۔ ملک نادہندہ ہونے کے خطرات سے دو چار ہو جائیگا اور ایسے میں غریب کدھر جائے گا تو سن لیں ایک فقیر نے ایک شخص سے سو روپے مانگے اس نے انکار کر دیا۔ فقیر نے جواب دیا بددعا دوں گا۔ اس نے پوچھا کیا بددعا دو گے۔ فقیر نے جواب دیا خدا کرے آصف زرداری دوبارہ اس ملک کا صدر منتخب ہو جائے تو اس شخص نے اس پوچھا اس سے مجھے کیا نقصان ہو گا۔ فقیر نے جواب دیا تم بھی میرے ساتھ مل کر بھیک مانگو گے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے