اتوار ،14 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘27 جنوری2013 ئ


ووٹ نہ ڈالنے والوں کو بجلی گیس سے محروم کیا جا سکتا ہے : رحمن ملک
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
وزیر داخلہ کو کچھ اور سوجھا یا نہیں لیکن انہوں نے ووٹر کے گرد گھیرا تنگ کر کے وڈے وڈیروں کو راضی کر لیا ہے۔ جناب والا! روٹی کپڑا اور مکان تو آپ ویسے ہی نہ دے سکے جبکہ بجلی اور گیس سے پچھلے پانچ سالوں سے آپ نے عوام کو محروم رکھا ہوا ہے۔ ہر مذہبی تہوار پر رحمن ملک ڈانگ ملک بن کر موبائیل کمپنیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور چُھٹی کا مزہ کِرکرا کر کے اگلے دن میڈیا کے سامنے سینہ تان کر اپنی کامیابی کی مبارکباد دینا شروع ہو جاتے ہیں۔
جس طرح پرانے بادشاہوں کے سامنے انکے چیلے چمچے خوشامد کر کے اپنے نمبر ٹانکتے تھے اور پھر بادشاہ خوش ہو کر انہیں اپنا قرب عنایت کرتے تھے آج اسی طرح وزیر داخلہ اوٹ پٹانگ مار مار کر اپنے پارٹی چیئرمین اور دیگر کے دل موہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید ان پر پارٹی کی نظرِ کرم برقرار رہے۔ وزیر داخلہ کو بات تو واضح کر دینی چاہئے کہ ووٹ پی پی کو نہ دینے کی وجہ سے بجلی اور گیس سے محروم کیا جا سکتا ہے یا سرے سے ہی ووٹ کاسٹ نہ کرنے والے کو یہ سزا دی جائے گی۔ الیکشن کے قریب اگر رحمن ملک نے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا تو پھر کیا بنے گا۔ یہ مذاق نہیں حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس وقت روٹی کپڑے اور مکان سے زیادہ مشکل تو کفن اور دفن ہیں غریب آدمی کو مر کر بھی چین نہیں۔ ابراہیم ذوق نے کہا تھا ....
اب تو گھبرا کر کہتے ہیں مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جب انتخابات ہونگے تو کیا احسن ملک کے پاس ایسے ہی اختیارات ہونگے کہ وہ ووٹ نہ ڈالنے والوں کا حقہ پانی بند کر سکیں؟
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
”پارٹی، بیوی اور حلقہ“ انسان کو تین چیزیں نہیں بدلنی چاہئیں : اعتزاز احسن
اعتزاز احسن کی بات تو چار آنے ٹھیک ہے لیکن ہمارے ہاں تو یہ تینوں چیزیں ایسے تبدیل کی جاتی ہیں جیسے انسان کپڑے بدلتا ہے۔ پارٹی اور حلقہ بدلنے والے کو ”لوٹا“ جبکہ بیوی بدلنے والے کو عرفِ عام میں ”کھوتا“ یعنی کسی کو کھو دینے والاکہا جاتا ہے۔ اعتزاز احسن سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا ”لوٹوں“ کو ساتھ ملا کر کوئی تیر مارا جا سکتا ہے؟ پارٹی بدلنے والا سبق ذرا تمام سیاستدانوں کو پڑھائیں، وٹو کو گھول کر پلانا کیونکہ زبانی بتائی ہوئی بات انہیں بھول جاتی ہے۔
اعتزاز صاحب جب پارٹی کے سربراہ پر مشکل آن پڑے تو پھر ذرا آگے پیچھے ہو جانے میں تو کوئی قباحت نہیں ہو گی کیونکہ 1977ءکی تحریک میں تو آپ بھی بھٹو صاحب کو چھوڑ گئے تھے اگرچہ پھر واپس انہیں کے سائے میں آ بیٹھے لیکن ایک دفعہ تو ”ڈبکی“ آپ نے بھی ماری تھی۔
بیوی تو ایسی چیز ہے کہ ساری دنیا ایک طرف جبکہ زوجہ کی محبت ایک طرف کیونکہ آپکی فرمائش پر اس نے سوہا جوڑا پہن کر یہ گانا بھی گایا ہوتا ہے ....
تیرے محلاں دے برج سنہرے
تے وچوں میری ڈولی لنگھی
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سکھ خاتون راجویندر کور قتل کا مرکزی ملزم غضنفر جرمنی میں پکڑا گیا۔
پاکستان میں گولی چلا کر ملزم آناً فاناً بھاگ نکلتا ہے۔ ہمارے ائر پورٹوں پر ایف آئی اے حکام کی مُٹھی گرم کرنے کے سوا تو یہ کام نہیں ہو سکتا۔ غیر ملکی ائر پورٹوں پر آپ ایک سوئی بھی غیر قانونی نہیں لے جا سکتے لیکن یہاں تو پانچ چھ فٹ کا آدمی بھاگ نکلتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی بھی کراچی سے بھاگا، اس سے قبل اجمل پہاڑی بھی جنوبی افریقہ کے جنگلات اور کراچی کے محلات میں گھومتا رہا لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم ہمارے ائر پورٹس پر تو سکیورٹی سخت ہونی چاہئے۔
توقیر صادق کو تو سرکاری پروٹوکول میں بھگایا گیا۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس تیار ہے، بس عنقریب کچھ مرغیاں احتساب کے جال میں پھنسنے والی ہیں۔ اس لئے ایف آئی حکام کو لنگوٹ کس لینا چاہئے۔ شاعر نے نے بگڑے ہوئے لوگوں کے متعلق کہا تھا ....
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مہ خانہ میں لے آﺅ سنور جائیں گے
یہ صرف مُلا کیلئے ہی نہیں ہر بگڑے ہوئے انسان کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے۔ پولیس بھی بگڑے ہوئے ملزمان کو 2 چار ہفتے گھپ اندھیرے والے تہہ خانے میں رکھتی ہے تاکہ انکی عقل ٹھکانے آ جائے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
 یہ بات تو درست ہے لیکن ہمارے ہاں تو وزیراعظم اپنے آپ کو خلیفہ وقت سے بڑا سمجھتے ہیں‘اس بنا پر وہ قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں‘ اپنے داماد کو ورلڈ بنک میں مقرر کرنے سے لے کر اپنے بھائی کو اسلام آباد میں بڑے عہدے تک بٹھانے سمیت اسے ہر حق حاصل ہے جبکہ خلیفہ وقت تو اپنے کپڑے سلوانے کیلئے بھی اپنے بیٹے سے ایک چادر ادھار لیتے تھے، قاضی کے بلانے پر حضرت علیؓ عدالت میں تن تنہا چلے جاتے تھے یہاں تو حیل و حجت کر کے عدالت سے فرار اختیار کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن