100شاہرائے قائداعظم لاہور پر قائم ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ وہ مکرم و مقدس ادارے ہیں جہاں سے مادر وطن کی حرمت کے رکھوالوں عظمت کے نگہبانوں شمع حریت کے پروانوں کو نہ صرف اعزازات سے نوازا جاتا ہے بلکہ سارا سال ایسے سرفروش سپوتوں کی پیدائش اور وفات کے ایام کو قومی فریضہ جان کر منائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ 18جنوری کو ہر سال حضرت قائداعظم کے جری سپاہی محمد حسین چٹھہ کی وفات پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور شیخوپورہ میں آپ کے مزار پر قرآن خوانی کا اہتمام بھی معمول ہے ۔
تاہم اس مرتبہ خصوصیت کے ساتھ منانے کی وجہ یہ ہے کہ اس بار آپ کی حیات و خدمات کو یکجا مرتب کرکے ایک کتاب تالیف کی گئی ہے جس کی رونمائی بھی جناب چٹھہ کی برسی پر ہی منعقد ہوئی۔ معاشرے سے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے آپ کا مدعاآپ کی صورت و سیرت پر گل فشانی اپنے اپنے اندازو الفاظ میں کر رہے تھے۔ سیاسی کارکن اور پارلیمنٹیرین پر واجب ہے کہ حضرت قائداعظم کے نابغہ روزگار سیاسی کارکن اور ملت پاکستانیہ کی پارلیمانی تاریخ کے درخشاں ستارے فکر قائدکے امین اور دو قومی نظریہ کے داعی محمد حسین چٹھہ کی حیات پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کرکے آگاہی اور رہنمائی حاصل کرے ۔کتاب کو ممتاز دانش ور اور صحافی رفیق عالم مرحوم نے عرق ریزی و جانفشانی سے تالیف کیا اس کا ہر باب معونیت کے لحاظ سے لاجواب ، ہر واقعہ حقائق کا آئینہ دار ہر موضوع بے پناہ وسعت کا حامل جو قاری کو نظریہ کی اتھا گہرائیوں اور کردار سازی کی بلندیوں سے روشناس کرتا ہے۔
چودھری محمد حسین چٹھہ کی برسی پر ہونے والے پروگرام کی خصوصیت یہ تھی کہ ابتدا سے اختتام تک سامعین ہال میں بڑے دلجمعی اور انہماک سے بیٹھے مقررین کو سنتے رہے ایسی محفلوں میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔جناب مجید نظامی نے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ چٹھہ اور میرے نظریات سوچ اور منزل ایک ہی تھی ۔چٹھہ صاحب کا تعلق شیخوپورہ سے تھا جبکہ میرا تعلق سانگلہ ہل سے ہے ۔ میں انہیں پنجاب اور پاکستان کی سیاست کے حوالے سے خوب جانتا ہوں مگر رفیق عالم نے کتاب لکھ کر ہماری معلومات میں اضافہ کیا ۔مجھے شیخوپورہ محمد حسین چٹھہ کے پاس کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ۔چٹھہ صاحب کے صاحبزادے نعیم چٹھہ نے کہا کہ میرے والدنے اقبال اور قائد کے اصولوں پر صدق دل سے عمل کیا انہوں نے زندگی بھر جمہوری روایات کی پاسداری کی ۔ نعیم چٹھہ نے فخریہ انداز میں کہا کہ میرے والد نے ضیاءالحق کی شوری میں جانے سے مجھے روکا جو ان کے جمہوریت پسند ہونے کی دلیل ہے ۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے فرمایا کہ ہم سب کواس کتاب سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے ہمیں اپنے نظریات کی حفاظت کرنی ہے کیونکہ نظریات ہی چٹھہ صاحب جیسے لیڈر پیدا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ پاکستان کے ہر لیڈر کو چٹھہ صاحب کی طرح قائداعظم کا سچا اور پکاپیرو کار ہونا لازم ہے ۔یہ کتاب رفیق عالم کا بڑا کارنامہ ہے ۔ بشری رحمن نے کہا کہ چٹھہ صاحب اصول پسند سیاستدان تھے ۔ان پر ایک خوبصورت کتاب لکھی گئی اس حوالے سے مزید لکھا جائے ۔ اسلم زار ایڈو کیٹ کہہ رہے تھے کہ محمد حسین چٹھہ صاحب بصیرت انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ان کی پیروی ہی ملک کی سمت درست کر سکتی ہے ۔ آصف بھلی نے کہا کہ محمد حسین چٹھہ کی زندگی کے چارباب دکھائی دیتے ہیں ۔ قائداعظم ، پاکستان ، مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان ۔ آپ نے مارشل لاﺅں کی مصیبتوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ۔اجلاس سے تنویر اعباس تابش ، ہادی اقبال، ڈاکٹر اختر سندھو ، شاہد رشید ، عابد حسین چٹھہ اور پیر سید کلیم احمد خورشید نے بھی خطاب کیا ۔راقم نے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کے بعد حضرت پیر صاحب پگارو کا بیان پڑھ کر سنایا ۔پیر پگاروفرماتے ہیں کہ جناب چٹھہ کو میں نے تب سے دیکھا جب میرے والد باقاعدہ سیاست میں قدم رنجاہوئے ۔ بدلتا وقت آپ کی سوچ فکر پر اثر انداز ہو سکا نہ طرز حیات میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ۔ آپ کاوالد گرامی کے ان قریب ترین دوستوں میں شمار ہوتا ہے جن سے وہ محبت و احترام کا رشتہ تھا ۔میر ے والد بطور صدر مسلم لیگ چٹھہ صاحب کی ذات پر سب سے زیادہ بھروسہ اور اعتمادفرماتے ۔ اپنے فیصلوں میں مرحوم کی مشاورت کو قدرمنزلت کا مقام دیتے ۔ بلاشبہ دونوںعظیم رہنماﺅں کی دوستی زندگی بھر قائم رہی ۔ دور حاضر میں چودھری صاحب کے پائے کا اصول پسند اور نظریاتی پاکستانی ڈھونڈنے سے میسر نہیں ۔ آپ کی تحریک کو تعمیر پاکستان اور جمہوریت کےلئے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔