بڑے میاں صاحب‘ چھوٹے میاں صاحب سے سیکھیں!

ہمارا قانون ”تگڑوں“ کیلئے بے معنی سہی‘ لیکن اے کاش اس موقع پر کچھ ملکی حالات کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔ ہماری تہذیب میں اڑوس پڑوس مرگ والے گھر‘ شادی والے گھر سے ڈھولکی کی آواز تک نہیں پہنچتی۔ کچھ ہنسی مذاق ٹھٹھہ مخول بھی احتیاط سے دھیمے سروں میں کہ کہیں یہ میٹھا میٹھا سا شور گھر کی چار دیواری سے باہر نہ نکل پائے۔ پھر یہ تو ایک دو نہیں یکدم اٹھائیس اموات کا سانحہ تھا۔ ’مرگ انبوہ جشن دارد‘ ضرور کسی سنگدل نے گھڑا ہو گا۔ وگرنہ یہاں مستونگ میں آسمان بھی رویا اور موت بھی کچھ سوگوار دکھائی دی۔ سانحہ مستونگ میں جاں بحق ہونے والے چوبیس افراد کی تدفین آہوں اور سسکیوں میں بہشت زینب قبرستان میں کی گئی۔ لقمہ اجل بننے والے باقی چار افراد کو آنسو¶ں کے سیلاب میں ہزارہ ٹا¶ن قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس موقعہ پر حفاظتی اقدامات کے طور پر قریبی پہاڑوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوجی اہلکار بھی دیکھے گئے۔ بلوچستان کے علاقوں مستونگ اور پنجگور میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشن کرکے بے شمار افراد کو پکڑ لیا ہے۔ اس آپریشن میں ہیلی کاپٹر اور بکتر بند گاڑیوں کی بھی مدد لی گئی۔ پھر خوف و ہراس کا کیا عالم ہو گا کہ ایران سے زائرین کی بسوں کی آمدورفت معطل کر دی گئی ہے۔ 301 زائرین کو والنبڈین ائرپورٹ سے بذریعہ C-103 طیارہ کوئٹہ لایا گیا۔ پرچہ نویس صوبہ سندھ میں بھی کہاں امن و امان لکھ رہے ہیں۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے بیان کے خلاف ’جئے سندھ متحدہ محاذ‘ کی ہڑتال سے ایک دن پہلے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہر کریکر دھماکوں سے گونج اٹھے۔ دو گھنٹوں کے درمیان 51 کریکر دھماکے کئے گئے۔ کراچی میں پرتشدد واقعات میں پی پی رہنما سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ جبکہ پولیس موبائل پر دستی بم کے حملے میں ایک اہلکار سمیت تین افراد زخمی ہوئے۔ کراچی سے ایک عرصہ سے خیر کی خبریں آنی بند ہو چکی ہیں لیکن خیر کی خبریں کہاں سے آرہی ہیں؟ سید شوق جعفری کی تازہ نظم ”خبر نہیں“ میں بے خبری ہرگز نہیں۔
خبر نہیں کہ کہاں کس مقام پر کوئی
کسی کو قتل کرے
یا پھر دھماکہ ہو
میرے وجود کے ٹکڑے فضا میں بکھرے ہوں
میری نماز جنازہ بھی غائبانہ ہو
یہی تو ہوتا رہا ہے
کچھ نئی بات نہیں
خبر نہیں کہ کہاں....؟
لاہور میں نواں کوٹ کے علاقہ چوک یتیم خانہ کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گذشتہ ماہ قتل ہونے والے اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمان معاویہ کے بھائی مولانا سعید الرحمان کی کار پر فائرنگ کر دی۔ پھر لاہور سمیت کئی شہروں میں بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ پر لوگ سراپا احتجاج بنے رہے۔ بجلی اور گیس کے بحران میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی شہروں اور دیہات میں بجلی کی بندش کا دورانیہ 12 سے 18 گھنٹے برقرار رہا۔ اس باعث کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ گھروں میں گیس کی بندش کے باعث چولہے بدستور ٹھنڈے رہے۔ پھر کتنے لوگ بازاری سالن روٹی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں؟ صوبائی دارالحکومت میں علامہ اقبال ٹا¶ن‘ سبزہ زار‘ سید پور‘ ایجوکیشن ٹا¶ن‘ فیصل ٹا¶ن‘ مسلم ٹا¶ن‘ اچھرہ‘ سمن آباد‘ بند روڈ‘ اندرون شہر بلال گنج کریم پارک‘ امین پارک‘ شاہدرہ‘ مغلپورہ‘ گڑھی شاہو‘ دھرمپورہ‘ جلوموڑ وغیرہ کے مکین سراپا احتجاج بن گئے۔ اوپر لکھے گئے محلوں آبادیوں کی لمبی فہرست میں کوئی پوش علاقہ شامل نہیں۔ پوش علاقوں کے مکین احتجاج نہیں کرتے۔ انہیں احتجاج کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کے ساتھ تو خصوصی عدالتوں میں بھی ”خصوصی سلوک“ برتا جاتا ہے۔ ایک خصوصی سلوک کے ”حقدار“ کا قصہ سنیں۔ ایک خصوصی عدالت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت جاری ہے۔ ادھر پرویز مشرف کے ہاں اس مسئلہ پر غور و خوض بھی جاری کہ عدالت میں حاضر ہوا جائے یا سردست ہسپتال ٹھہرنا ہی مناسب ہے؟ دوران سماعت پرویز مشرف کے حامی وکیل میجر ریٹائرڈ اختر شاہ نے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ کو دھمکی دی کہ ”اگر کسی نے پاکستان‘ عدلیہ اور فوج کے خلاف کچھ کہا تو میں اس کی ٹانگیں چیر دوں گا۔ میں ان کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا۔“ اکرم شیخ نے اسے جواب دیا ”پرویز مشرف کی طرح آپ بھی ملک کو ٹیک اوور کر لیں۔“ ریٹائرڈ میجر اختر شاہ نے ملک کو ٹیک اوور کیا کرنا تھا۔ کل گوجرانوالہ جی ٹی روڈ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کے استقبالی ہجوم نے ٹیک اوور کیا ہوا تھا۔ گوجرانوالہ پہنچنے پر وفاقی وزیر کا استقبال جگہ جگہ شدید ہوائی فائرنگ کرکے کیا گیا۔ پورا شہر لرز کر رہ گیا۔ لوگ گھبرا کر اک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کہیں طالبان تو نہیں آن دھمکے۔ یہ بات تو اب فائرنگ کرنے والے بھی مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ فائرنگ کے طوفان میں عزت مآب وزیر صاحب بھی گھبرا کر گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔ اس سارے منظرنامے میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی کہ یہ ”تگڑوں“ سے معاملہ تھا۔ شہر بھر میں ابھی تک خوف و ہراس اور دہشت کی فضا قائم ہے۔ کسی قانون‘ شریفانہ ضابطے اور رواج میں ایک وزیر مملکت کے وزیر بن جانے پر اسے اکیس ہزار گولیوں کی سلامی واجب نہیں ہو جاتی۔ ملک پر قیامت گزر رہی ہے۔ یہ توبہ استغفار کا وقت ہے۔ اللہ ہمارے سیاستدانوں کے گناہ معاف فرمائے اور ہمارے بھی کہ یہ سیاستدان ہمارے ووٹوں سے ہی ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے بزرگ سیاستدان‘ وفاقی وزیر کے والد جناب خان غلام دستگیر خان بھی اس لاقانونیت پر یقینا خاصے آزردہ ہوں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے حکم پر 200 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج بھی ہو چکا‘ کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ شہباز شریف اپنے قانون کی حکمرانی کے جذبے کے ہاتھوں مجبور اپنے داماد کو بھی ہتھکڑی لگوا چکے ہیں۔ یہاں بھی یقیناً پیچھے نہیں رہیں گے۔ بہت کچھ کر دکھائیں گے۔ سو چھوٹے میاں صاحب اپنا فرض ادا کر چکے۔ اب گوجرانوالہ شہر بڑے میاں صاحب کی طرف دیکھ رہا ہے کہ ادھر سے کیا آتا ہے نالوں کا جواب آخر؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...