جب بھٹو صاحب نے اقتدار میں آتے ہی ممتاز بھٹو کو ٹیلنٹڈ کزن کہا تھا۔ بھٹو صاحب نے کچھ تو دیکھا ہو گا۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکمرانوں کے پاس صرف ایک ہی آنکھ ہوتی ہے۔ وہ اعتماد صرف اپنے گھر والوں پر کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خطرہ ہمیشہ حکمرانوں کو گھر کے اندر سے زیادہ رہا ہے۔ ممتاز بھٹو نے نوازشریف کا سہارا لیا۔ پھر بے سہارا ہو گئے۔ اگلی کہانی آگے چل کر بتاﺅں گا۔ بھٹو صاحب نے بڑے بڑے کام کئے۔ یہ بھی تو انہوں نے کسی آنکھ سے دیکھا ہو گا۔ پھر یہ آنکھ بھٹو صاحب نے کیوں بند کر لی۔ اور وہ آنکھ کھلی رکھی جس کے ذریعے ممتاز بھٹو جیسے اپنی فیملی کے لوگ انہیں ٹیلنٹڈ نظر آئے تھے۔ اپنے واقعی ٹیلنٹڈ ساتھی انقلاب اور خواب کی آرزو سے سجے ہوئے ساتھیوں کو ذلیل و خوار کیا انہیں بے عزت کیا اور اپنے دائرے سے باہر نکال دیا۔ اور پھر خود بھی اپنے دائرے سے باہر نکال دئیے گئے۔ یہ بڑا نقصان ہے۔ اور یہ بھی بڑا نقصان ہے کہ بھٹو صاحب نے خود ہی خود کو تنہا کر لیا۔ پھر وہ لوگ ان کے آس پاس چھا گئے جو ہر حکمران کے آس پاس گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ اس گھیرے میں اُسے سب اچھا لگتا ہے اور پھر یہ گھیرا گھیراﺅ بن جاتا ہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنے عوام کو چھوڑ کر ان سے اچھا نہیں کیا تھا۔ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا۔
بھٹو صاحب نے عام لوگوں کو چھوڑ دیا اور انہوں نے بھٹو صاحب کو آج تک نہیں چھوڑا۔ بے نظیر بھٹو۔ آصف زرداری اور اب بلاول بھٹو زرداری۔ بلاول سرگرم ہوئے ہیں اور بھرپور لگ رہے ہیں۔ ان کے مختصر تبصرے بہت چونکاتے ہیں۔ بالخصوص عمران خان کے لئے اُن کے شریر جملے بہت مزا دیتے ہیں۔ آجکل وہ سندھ فیسٹیول میں مصروف ہیں۔ ان کے ساتھ بختاور بہت نظر آتی ہیں۔ ایک زمانے میں بختاور بالکل اپنی خالہ صنم بھٹو کی طرح گوشہ نشین یعنی الگ تھلگ رہنے لگی تھی۔ اگر بختاور کو گوشہ نشینی کا پتہ ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ لگتا تھا کہ بختاور کہیں چھپ گئی ہوں یا چھپا دی گئی ہوں۔ آصفہ بلاول کے ساتھ نظر نہیں آتی۔ مگر ان کے بیانات (ٹویٹر بازی) بدستور جاری ہے۔ آصفہ آصف صاحب کی لاڈلی ہیں۔ بلاول ”صدر“ زرداری کی سیاست کو اپنے والد کی سیاست نہ سمجھیں۔ اُن کی سیاست کو نصرت بھٹو نہ سمجھ پائیں۔ پھر بے نظیر بھٹو بھی نہ سمجھ سکی۔ بلاول کیا سمجھے گا۔ وہ ”صدر“ زرداری کے اعتبار اور پیار کے قابل اپنے آپ کو بنائے رکھے۔ یہ ہنر بھی اسے اپنے والد اور ”صدر“ زرداری سے سیکھنا ہو گا۔ اگر بھٹو صاحب ہوتے اور بھٹو صاحب ایک ہی ہیں ذوالفقار علی بھٹو‘ باقیوں کا نام لینا پڑتا ہے۔ بھٹو صاحب سے بھی آصف زرداری کا رابطہ بنتا تو پھر انہیں بھی پتہ نہ چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بھٹو صاحب تو آخری عمر میں اقتدار کے آخری لمحوں میں روایتی جاگیردار اور سرمایہ دار سیاستدانوں کو بھی نہ سمجھ سکے۔
صدر زرداری نے سب کو حیران کیا پھر پریشان کر دیا۔ یہ جو کہتے ہیں کہ نوازشریف ”صدر“ زرداری کی سیاسی چالوں کو ایسے سوالوں کی طرح لیتے رہے جن کا جواب صرف ”صدر“ زرداری کے پاس تھا۔ زرداری صاحب کے ساتھ جب تک ”صدر“ زرداری نہ لگایا جائے تو بات نہیں بنتی۔ اُن کا صدر بننا بھی ان کی ”سیاست“ ہے۔ اور یہ بڑی بات ہے۔ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ آخر وہ وزیراعظم تو بن گئے۔ ”سو سُنار کی ایک لوہار کی“ مگر یہ بھی ”صدر“ زرداری کی ”چال“ ہے۔ نوازشریف وزیراعظم بنے ہیں کہ باری اُن کی تھی اور ”صدر“ زرداری انتظار اور صبر کی طاقت کو جانتے ہیں۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اگر غیر معمولی حالات نہ ہوئے، تو اگلی باری زرداری کی۔ تب بلاول کا مستقبل کیا ہو گا۔ یہ صرف ”صدر“ زرداری کو معلوم ہے۔ آصفہ کے بارے میں بھی وہی جانتے ہیں۔ مشرف کے حوالے سے ”صدر“ زرداری کی سیاست کو نوازشریف نہیں سمجھے تو مشرف کیا سمجھیں گے۔ چودھری نثار کچھ کچھ سمجھتے ہیں۔
ممتاز بھٹو نوازشریف سے مایوس ہوئے تو چودھری نثار سے ملے۔ انہوں نے ممتاز بھٹو کے بیٹے امیر بخش بھٹو کو مشیر بنوایا۔ پھر کیا ہوا کہ اسے مستعفی کرا لیا۔ امیر بخش میں کچھ ہوتا تو وہ نوازشریف کو اپنا بنا لیتا۔ ممتاز بھٹو تو بھٹو صاحب کو اپنا نہ بنا سکے۔ مگر وہ ”صدر“ زرداری کے ساتھ ایک ملاقات کر لیتے۔ وہ نوازشریف سے بڑھ کر اُن کو ”ریلیف“ دیتے۔ ممتاز بھٹو کو اپنی پارٹی کی پوزیشن کا پتہ تھا یہ نوازشریف کی مہربانی تھی کہ ”اتنی سی پیپلز پارٹی“ ن لیگ میں ضم کر لی۔ یہ کام ”صدر“ زرداری کے ساتھ کیا گیا ہوتا تو زیادہ فائدہ ہوتا۔ اب ممتاز بھٹو نے اپنی پارٹی ن لیگ سے الگ کی ہے۔ اس واقعے کا بھی نہ نوازشریف لیگ کو پتہ چلا ہے نہ ممتاز بھٹو پارٹی کو پتہ چلا ہے۔
ممتاز بھٹو سے وعدہ ہوا تھا کہ آپ کو صدر پاکستان بنایا جائے گا مگر وہ صدر ممنون کی طرح نوازشریف کے ممنون نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ وعدے الیکشن سے پہلے کے تھے؟ ”صدر“ زرداری کو وزیراعظم نوازشریف نے استقبالیہ دیا تھا تو ممتاز بھٹو کو کچھ تو سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ممتاز بھٹو کی ساری سیاست بھٹو فیملی کی مخالفت پر چلتی ہے ”صدر“ زرداری بھی تو اب بھٹو فیملی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ممتاز بھٹو کو دعوت دے دی ہے۔ سنا ہے کہ ممتاز بھٹو نے کہا ہے۔ میرے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں۔ پھر ممتاز صاحب زرداری کی سیاست کو اب تک نہیں سمجھے۔ نوازشریف نے بھی جو کچھ اُن کے ساتھ کیا ہے وہ ”زرداری سیاست“ کا کرشمہ ہے۔ بلاول بھٹو جو کچھ کر رہا ہے۔ یہ بھی ”زرداری سیاست کا فیسٹیول“ ہے۔ سیاست میں دوستی دشمنی کچھ نہیں ہوتی۔ صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے یا سیاسی عناد ہوتا ہے۔ ممتاز بھٹو جو زرداری صاحب کے لئے کہتے رہے ہیں وہ اُن کو بھول جائیں گے مگر زرداری صاحب کو نہیں بھولیں گے۔ سیاست دیکھیں کہ زرداری صاحب نے ممتاز بھٹو کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اب بلاول کی دعوت کے اندر جو عداوت ہے۔ اسے ممتاز بھٹو نہیں سمجھیں گے۔ ممتاز بھٹو فاطمہ بھٹو سے رابطہ کریں۔ اور بھٹو فیملی کو متحد کریں۔
عمران خان نے بھی ممتاز بھٹو کو تحریک انصاف کے لئے دعوت دے دی ہے۔ یہ عمران کی اپنے ساتھ بے انصافی ہے۔ ایسی بے انصافیاں اب بہت بڑھنے لگی ہیں۔ یعنی اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی مسلم لیگ ن میں تقریباً چلے گئے تھے۔ اُسے عمران خان نے اپنے پاس بلا لیا تو اُسے کس نے بھجوایا ہے؟ جاوید ہاشمی بھی مسلم لیگ ن سے آئے ہیں جو بھی اپنے لیڈر سے کچھ ناراض ہو۔ تحریک انصاف کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں۔ البتہ برادرم انعام اللہ خان نیازی کے لئے مجھے بہت افسوس ہے۔ اس کے لئے ن لیگ والوں کو جاوید ہاشمی سے بھی بڑھ کر افسوس ہوا ہے۔ دونوں نے اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا۔ اس کا افسوس حفیظ اللہ خان نیازی کو بھی ہے۔