مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی بربریت پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی

مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی بربریت پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہاں چار سو ورنگ و بو
آج ہم انتہائی اہم دور سے گزر رہے ہیں بھارت کی ہوس ملک گیری ایک بار پھر امن و امان کو خراب کرنے پر تلی ہوئی نظر آ رہی ہے، جنگ کے ہولناک اور تباہ کن بادل ہماری مملکت کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں، ہماری سرحدوں پر 90فیصد بھارتی فوجیوں کے اجتماع سے نہ صرف دونوں ملکوں کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ امن عالم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، بھارت کی اس ہوس کے پس پشت صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے … مسئلہ کشمیر؟
اب جبکہ بھارت نے اچھی طرح محسوس کر لیا ہے کہ جائز اور پرامن طریقے سے وہ کشمیر پر قابض نہیں رہ سکتا تو اس نے پاکستان کو مرعوب کرنے کیلئے اپنی طاغوتی مشینری کو حرکت میں لانے کی آخری صورت اختیار کرنا شروع کی ہے، کشمیر کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے 65سالوں سے کوششیں ہو رہی ہیں، یہ کوششیں مختلف ادوار سے گزریں اور ہر دفعہ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح عین موقع پر مصالحت کی تمام جدوجہد کو بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی سے خاک میں ملا دیا اور کس طرح ہر موقعے پر پاکستان نے ہرجائز پیشکش کا خیر مقدم کیا۔
جنت نگاہ، فردوس نظیر، ارض کشمیر فطرت کا ایک گراں بہا عطیہ جو فطرت نے انسانوں کو عنایت کیا اور مطمئن ہو گی کہ اس نے سب کچھ دے دیا اور وہی کشمیر آج بھارتی مظالم کی آما جگاہ بنا ہوا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی بربریت پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے،یوتھ فورم فار کشمیر مظلوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے ملک گیر سطح پر مہم چلائیگا،مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کے چھائے ہوئے سیاہ بادل جلد چھٹنے کو ہیں،حریت رہنماؤںاورکشمیریوں کی آزادی کے لیے جاری جدوجہدجلد پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔ برصغیرمیں پائیدارامن اس وقت ہی قائم ہوسکتاہے جب کشمیرکے مسئلہ کوترجیح بنیادوں پرحل کرنے کیلئے اقوام متحدہ اپناکرداراداکرے۔انشاء اللہ کشمیریوں کی آزادی کا سورج جلد طلوع ہونے والا ہے۔
درندہ فوجیں بڑھیں اور فطرت کی رعنائیاں کچل دی گئیں، بم پھٹے اور آبشاروں کے نغمات چھین لئے گئے، توپیں گرجیں اور حسن و تبسم مٹ گئے، ظلم اس قدر کہ آسمان کانپ اٹھا، اس ’’فردوس ارضی‘‘ پر اب … کچھ نہیں، مگر معصوم اور مظلوم انسانوں کے فریاد و نالے اور آہیں!
لاکھوں مسلمانوں نے پکارا، دنیا نہ سنے، لیکن پاکستان اپنے کان بہرے نہیں کر سکتا، اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا، پاکستان کشمیر کو تباہ برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ’’کشمیر پاکستان کی  شہہ رگ ہے‘‘۔
کشمیر آج سے نہیں ازل سے ہمارا حصہ ہے اور رہے گا (انشاء  اللہ ) کشمیر کی نوے فیصدآبادی مسلمان ہے، مسلمان وہاں آج نہیں گیا، چودھویں صدی کے ہوائل سے وہاں موجود ہے اور مسلمان ہی وہاں حکمرانی و جہان بانی کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں یہاں تک کہ 1587ء  میں یہ اکبر کی سلطنت کا ایک جز بن گیا اور احمد شاہ ابدالی تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ 1819ئ￿ میں دیوان محکم چند کی عیاریوں اور افغانوں کی باہمی لڑائی کے طفیل کشمیر رنجیت سنگھ کے ہاتھ آ گیا۔
1820ء  میں رنجیت نے جموں کا علاقہ ایک ڈوگرہ سردار گلاب سنگھ کو بخش دیا اور آہستہ آہستہ وہ اور پر پرزے نکالنے لگا اور صحیح اقتدار اس وقت ہی حاصل ہو سکا جب سکھوں اور انگریزوں کے درمیان کامیاب دلالی کے سلسلے میں انگریزوں نے معاہدہ امرتسر کے ذریعے یہ خوب صورت علاقہ صرف 75لاکھ روپے میں گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور اسی طرح 841/2(ساڑھے چوراسی) ہزار مربع میل زمین اور کئی لاکھ انسانوں کی قیمت صرف 75لاکھ روپے میں طے ہوئی جو کہ برصغیر کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن تھا۔
26اکتوبر1947ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں اتنا ہی تاریک اور غمناک ہے جتنا معاہدہ امرتسر کی تاریخ 16مارچ 1846ء  ایک سازش کے تحت 40لاکھ انسانوں کا سودا کیا جانے لگا، مسلم کانفرنس سامنے آئی، اس نے اپنی غلامی کے اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور پھر انہوں نے اپنی آزادی کے پروانے پر زندہ اور گرم خون سے دستخط ثبت کئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے پاکستان کے دنیا کے نقشے پر آئے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ بھارت نے اپنی فوجیں زبردستی کشمیر میں اتارنا شروع کر دیں، بھارت اسٹین گنوں،توپوں اور بمباروں کی طاقت سے 40لاکھ انسانوں کو ہمیشہ کے لئے اپنا غلام بنا لینا چاہتا تھا، لیکن پاکستان نے بھارت کے عزائم کو ناکام بنا دیا اور سا وقت بھی دنیا کے امن و امان کی خاطر پاکستان کہتا ہے کہ :’’کشمیر کے چالیس لاکھ باشندوں کو حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔‘‘
ریاستوں کے الحاق کے وقت واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ریاستیں اپنی جغرافیائی اور عوام کی رائے کا خیال رکھتے ہوئے پاکستان یا ہندوستان کیساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔ تقسیم کے وقت کشمیر کی رعایا نے اکثریت کیساتھ پاکستان میں شامل ہونے کو کہا جو کہ بھارت کو ناگزیر لگا اور اس نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں، پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور پاکستان نے ہر لحاظ سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے، لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
مسئلہ کشمیر کا آبرو مندانہ حل ہی اس خطے کو دہشتگردی کی زد میں باہر نکال سکتا ہے کیونکہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی بھی ردعمل کے طور پر دہشتگردی کو جنم دے رہی ہے اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی جبکہ بھارت انکاری ہے۔ یہ مسئلہ اگر ابتدا ہی میں حل ہو جاتا یا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا ایک پرامن خطہ ہوتا لیکن نہ تو اقوام متحدہ نے اس طرف کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑی اور آج تک یہ مسئلہ جوں کاتوں ہی ہے۔ اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ خاموش کیوں ہے؟ کیا اسے بھارت کی 8لاکھ مسلح افواج نظر نہیںا ?تی جس نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبا رکھا ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح کشمیریوں کا بھی ساتھ دے تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق مل نہ جائے اور بھارت کے ظلم و ستم سے انہیں نجات نہ مل جائے اور وہ بھی دنیا میں پرامن طور پررہ سکیں۔
کشمیری عوام آج بھی خود ارادیت کے منتظر ہیں جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کشمیری عوام کے آزادانہ مرضی کا مظہر ہو اس مقصد کے لئے دنیا بھر میںم وجود کشمیری عوام کی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو چاہئے کہ بات چیت کو مزید بڑھائیں آپس کے فتنے و فساد کو چھوڑ کر کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کریں اور اس سلسلے میں کشمیری رہنما?ں کو بھی مذاکرات میں شامل کریں۔ عالمی برادری کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے میں دونوں ملکوں سے بھرپور تعاون کرے۔
5فروری کا دن پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجتہی کے طور پر منایا جاتا ہے اس کا باقاعدہ آغاز 1990ء  میں ہوا اس دن کو منانے کی اپیل سب سے پہلے جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے 5جنوری 1990ء کو ایک پریس کانفرنس میں کی تھی، ساتھ ہی اس وقت کی وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے قومی سطح پر منانے کا اعلان کیا۔
یوں یہ دن پورے پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جانے لگا، اہل کشمیر نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دے رکھا ہے کہ پاکستان ہماری منزل ہے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں۔
ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں تاکہ مظلوم کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت مل جائے اور وہ بھی آزادانہ طور پر زندگی گزار سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...