عدالت میں دو فریق ہوتے ہیں- مُدّعی اور مُدّعلیہ اور اُن کے وکیل انہیں انصاف دِلانے کے لئے اُن کا ’’ مقدمہ لڑنے‘‘ کے لئے عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ جناب پرویز مشرف کے خلاف مُدّعی ریاستِ پاکستان ہے اور مقدمہ ہے ’’ غداری‘‘ کا حضرت عیسیٰ ؑنے اپنے ایک خطاب میں ہر ایک شخص کو مشورہ دیا تھا کہ ’’ مُنصف کی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ’’ اپنے بھائی ‘‘ (فریق مخالف) سے صُلح کر لے ورنہ ممکن ہے کہ تجھے مُنصف زیادہ سزا سُنا دے !‘‘- حضرت عیسیٰ ؑ کا ماورائے عدالت فیصلے کا مقصد ہر گز وہ نہیں تھا جسے آج کے دَور میں ماورائے عدالت ’’ مُکّ مُکا ‘‘ کہا جاتا ہے ! ہمارے یہاں بعض اوقات قرضہ خوروں، ٹیکس چوروں ، قبضہ گروپوں اور اِسی طرح کے دوسرے فنکاروں اور حکومت کے درمیان جو ’’ مُکّ مُکا‘‘ ہوتا ہے اُسے انگریزی میں N.R.O کہتے ہیں۔ جب بھی کسی چیف آف آرمی آف سٹاف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین توڑ کر ریاست سے غدّاری کی تو اُس پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ یہ اعزاز جناب پرویز مشرف کو حاصل ہُوا کہ تقدیر انہیں گھیر گھار کر وطن واپس لے آئی ہے۔ اُن کے وکیل صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’’ جناب پرویز مشرف کسی کے دبائو میں آکر پاکستان نہیں آئے‘‘- لیکن حقیقت ہے کہ سابق صدرِ مملکت اِس وقت بہت ہی دبائو میں ہیں اُستاد جلیلؔ کے بقول؎
’’ آہوں کی فوج لے کے ، چَلی ہے دُعا مری
اچھّا ہے ، کُچھ دبائو پڑے آسمان پر ‘‘
جناب پرویز مشرف کی ’’ دُعا‘‘ کے ساتھ ’’ آہوں کی فوج ‘‘ کا اثر آسمان پر پڑے یا نہ پڑے لیکن زمینی حقاق فی الحال اُن کے حق میں نہیں ہیں۔ صاحبزادہ قصوری نے تو سابق صدر کے چاہنے والوں کو تشویش میں مُبتلا کر دیا ہے جب کہا کہ ’’ جناب پرویز مشرف کا دِل کا دورہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے اور اِس کی ذمہ دار حکومت اور ( غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی) عدالت ہو گی- اُدھر وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے جناب پرویز مشرف کا میڈیکل چیک اپ کے بغیر محض قیاس یا اٹکل سے یہ کہہ دیا کہ ’’ جناب پرویز مشرف کا کُچھ بھی کمزور نہیں ہے۔ البتہ اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں کمزور ہو گئی ہیںاوروہ عدالت کے بجائے سیدھے ہسپتال چلے گئے‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر جناب پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کے بجائے ہسپتال چلے گئے تو ، اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ اُن کے ’’ سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں کمزور نہیں ہیںانہوں نے اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق ہی یہ فیصلہ کِیا تھا لیکن پانسا الٹ گیا۔بقول جناب پرویز رشید ’’ اب اگر جناب پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوں گے تو انہیں ہسپتال میں ’’ چیر پھاڑ‘‘ کا خطرہ ہے‘‘۔ خطرہ تو دونوں طرف ہے صاحب !۔
اے ایف آئی سی کی طرف سے جناب پرویز مشرف کے بارے میں جو میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی ہے اُس کے مطابق اُن کا مرض بہت پیچیدہ اور غیر متوقع ہے۔ اِس سے دِل کے دَورے کا خطرہ ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے‘‘- رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’مریض (جناب پرویز مشرف) کو اپنی مرضی کے مقام پر طبی سہولیات کی جگہ پر علاج کرانے کا حق حاصل ہے اور مُلک میںترقی یافتہ کارڈیک سپورٹ سِسٹمز دستیاب نہیں‘‘- بہر حال فیصلہ توعدالت کو کرنا ہے کہ وہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر جناب پرویز مشرف کو علاج کے لئے مُلک سے باہر جانے کی اجازت دے دے یا نہ دے - ایسی صورت میں ساری ذمہ داری عدالت کی ہو گی ، حکومت کی نہیں۔60 ء کی دہائی میں سرگودہا کے ایک شاعر مجسٹریٹ میاں محمد اشرف اِس طرح کی مُشکل سے دو چار ہُوئے تھے جب انہوں نے ملزم سے مخاطب ہو کر کہا تھا؎
’’ جے میں بنھّاں تَینوں ، تیری مائی رووے
جے میں چھڈّاں تَینوں ، پی ایس آئی رووے‘‘
یعنی اگر مَیں تمہیں سزا سُنا دوں تو تمہاری ماں روئے گی اور اگر مَیں تمہیں بری کر دوں تو سرکاری وکیل روئے گا- چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی نے تو ’’انصاف سب کے لئے ‘‘ کے عنوان سے عدالتی ترانہ لکِھ کر خود کو شاعر ثابت کر دیا ہے۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب شاعر ہیں یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم- مَیں تو خیر جناب پرویز مشرف کا فَین ہوں اور نہیں چاہتا کہ اُن کی جان کو کوئی گزند پہنچے لیکن خدانخواستہ خصوصی عدالت نے انہیں مُجرم قرار دے کر ’’ بنھّ ‘‘ دِیا تو اُن کی والدہ محترمہ کو بہت صدمہ ہو گا۔
چیف پراسیکیوٹر جناب اکرم شیخ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’’غدّاری کے ملزم‘‘ کو سزا دِلوانے کے لئے پورا زور لگا دیں اور جناب پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم کا فرض ہے کہ وہ اپنے موُکل کو باعزت بری کرالیں، لیکن 24 جنوری کو خصوصی عدالت میں جو کُچھ ہُوا ، اُس پر جسٹس فیصل عرب صاحب کو دونوں طرف کے وکلاء سے کہنا پڑا کہ ’’آپ لوگ عدالت کو اکھاڑا نہ بنائیں‘‘ دلائل دیتے ہُوئے جب جناب اکرم شیخ نے کہا کہ’’حیرت ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف کو اپنے ادارے پر بھی اعتماد نہیں ‘‘ تو بات بڑھ گئی اور جناب احمد رضا قصوری اور اُن کے ساتھی وکلاء ، رانا اعجاز احمد خان اور میجر (ر) اختر شاہ نے زور زور سے بولنا شروع کر دیا اور میجر (ر) اختر شاہ نے کہا کہ ’’پاکستان عدلیہ اور فوج کے خلاف کُچھ کہا تو مَیں ’’ ٹانگیں چیر دوں گا‘‘ میجر (ر) اختر شاہ نے یہ الفاظ عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے بھی دہرائے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان دولخت ہونے سے پہلے (فروری 1971 ء میں) لاہور میں مینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ جلسہ ٔ عام سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ - ’’ مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کا جو کوئی رکُن ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا تو مَیں اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ پھر پاکستان ہی ٹوٹ گیا- بھٹو صاحب نے’’ ٹانگیں چیرنے‘‘ کی ’’اصطلاح‘‘ استعمال نہیں کی تھی لیکن اقتدار میں آ کر انہوں نے کئی مخالف سیاست دانوں کی ٹانگیں خود تو نہیں توڑِیں لیکن ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں ‘‘ اور پیپلز پارٹی کے جِیالوں سے ضرور تُڑوائیں پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جناب جے اے رحیم اور کئی دوسرے ترقی پسند قائدین کی بھی ٹانگیں تُڑوانے کا معقول بندوبست کیا گیا۔
پاکستان- عدالت اور فوج کے خلاف کُچھ کہنا واقعی جُرم ہے لیکن جہاں تک مجھے علم ہے کہ اِس جُرم کی سزا دینے کے لئے کسی بھی ریٹائرڈ میجر کو مُجرم کی ٹانگیں چیرنے کا از خود اختیار نہیں- کیا میجر (ر) اختر شاہ نے واقعی اپنے’’ منشور ‘‘کا اعلان سنجیدگی سے کِیا ہے ؟۔ کیا ہی اچھّا ہو کہ وہ اپنے ہم خیال احباب کی راہنمائی کے لئے ’’ ٹانگیں چِیرنے کا صحیح طریقہ ‘‘بھی بتا دیں!۔