آرمی چیف کا مدت ِ ملازمت پوری ہونے سے دس ماہ قبل توسیع نہ لینے کا اعلان اور قومی سیاست پر اسکے ممکنہ اثرات
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ وہ مدتِ ملازمت میں توسیع کے قائل نہیں‘ وہ مدتِ ملازمت پوری کرکے مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جائینگے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز آرمی چیف کے بیان کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ اس حوالے سے آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج ایک عظیم ادارہ ہے‘ پاکستان کا مفاد ہر چیز پر مقدم ہے‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ پورے عزم اور قوت سے جاری رہے گی۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آرمی چیف کا کہنا ہے‘ پاکستانی فوج ایک عظیم ادارہ ہے‘ وہ مدتِ ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتے اس لئے اپنی ریٹائرمنٹ کی مقررہ تاریخ کو ریٹائر ہو جائینگے۔
جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر 2013ء کو برّی فوج کے سربراہ کا چارج سنبھالا تھا اور انکی تین سال کی ٹرم اس سال 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے تاہم یہ ٹرم پوری ہونے سے دس ماہ قبل ہی انہوں نے اپنی مدتِ ملازمت پوری ہوتے ہی ریٹائر کا عندیہ دے دیا ہے جس سے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خواہش مند حلقوں میں سوگ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور سابق جرنیلی آمر مشرف نے بھی آرمی چیف کے اس فیصلے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے اپنی خواہشات کی بنیاد پر جنرل راحیل شریف کے حق میں اسلام آباد کی بعض شاہراہوں پر بینر بھی لگوائے گئے جن پر ’’قدم بڑھائو راحیل شریف‘‘ کے نعرے درج تھے تاہم آرمی چیف نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بینر اتروا دیئے۔ اسی طرح ایک شہری محموداختر نقوی کی جانب سے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے جس میں اپریشن ضرب عضب میں آرمی چیف کے کردار کی بنیاد پر انکی مدتِ ملازمت میں توسیع کی استدعا کی گئی ہے۔ دوسری جانب حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے بیشتر قائدین نے توسیع نہ لینے سے متعلق جنرل راحیل شریف کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اب فوج بطور ادارہ مزید مضبوط ہو گی۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے آرمی چیف کے فیصلہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب توسیع کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے قائدین نے بھی جنرل راحیل شریف کے اس فیصلہ کی ستائش کی جبکہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے اس امر کا عندیہ دیا کہ عوام نے زور ڈالا تو آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں توسیع لے سکتے ہیں۔
اصولی طور پر تو آرمی چیف کو اپنی مقررہ مدت پوری کرکے ریٹائر ہو جانے کا اعلان کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آئین اور قانون کے تحت کسی منصب سے ریٹائرمنٹ ایک روٹین کی کارروائی ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے چار جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت پر شب خون اور آئین کا حلیہ بگاڑ کر دس دس سال تک شخصی آمریت قائم کئے رکھنے کے باعث آرمی چیف کے منصب سے سول حکمرانوں کو ہمیشہ خطرات ہی محسوس ہوتے رہے ہیں جبکہ حکومت مخالف سیاست دانوں اور دوسرے حلقوں کی جانب سے بھی جمہوریت کی بساط الٹانے کے مقاصد کے تحت ہر آرمی چیف کیلئے رطب اللسانی کا سلسلہ شروع کیا جاتا رہا ہے جس سے سول اور عسکری قیادتوں اور اداروں کے مابین کشیدگی اور بداعتمادی کا ماحول پیدا ہوتا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل اسلم بیگ کے حوالے سے بھی غیرجمہوری عناصر متحرک رہے چنانچہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو انکی ممکنہ شب خونی کو ٹالنے کیلئے انہیں تمغۂ جمہوریت دینا پڑا۔ اسی طرح میاں نوازشریف کو اپنے سابقہ دونوں ادوار میں جنرل آصف نواز‘ جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے بنائی جانیوالی فضا کے باعث زچ ہونا پڑا اور بالآخر جنرل جہانگیر کرامت میاں نوازشریف کے ہاتھوں قبل ازوقت جبری ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے تاہم انکے بعد آنیوالے جنرل پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کے ہاتھوں اپنی برطرفی قبول نہ کی اور کورکمانڈرز نے باہم مشاورت کرکے میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس سے قبل ایک طاقتور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے پسندیدہ جرنیل ضیاء الحق کی شب خونی کا شکار بن کر تختہ دار تک جا پہنچے جبکہ اس سے قبل فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے اپنی اپنی شب خونیوں کے تحت جمہوریت کا حلیہ بگاڑا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے ماورائے آئین اقدام کو باطل قرار دیا اور جرنیلی آمروں کو عدالتی چھتری فراہم کرنیوالے نظریۂ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کیا اسکے باوجود دودھ کے جلے چھاچھ سے بھی خوف کھاتے نظر آتے ہیں۔ اس خوف کی بنیاد پر ہی ہر سول حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے آرمی چیف کو تعینات کرے جس سے اسکے اقتدار کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ میاں نوازشریف نے بھی اپنے موجودہ اقتدار میں دو سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے جنرل راحیل شریف کو بطور آرمی چیف تعینات کیا مگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاجی دھرنوں کے دوران بالخصوص عمران خان کے ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے اشاروں نے جنرل راحیل شریف کے حوالے سے بھی سیاسی ماحول کشیدہ کیااور جمہوریت کو بچانے کے نام پر پارلیمنٹ میں موجود تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں باہم متحد ہو گئیں۔ اس موقع پر آرمی چیف کے ثالثی کے کردار کے بھی چرچے ہوئے جس پر خود آرمی چیف کو اپنے معاملہ کی وضاحت کرنا پڑی تاہم آرمی چیف سے توقعات وابستہ کرنیوالے حلقوں نے کشیدگی اور بدگمانی کا ماحول برقرار رکھنے کیلئے آرمی چیف کی دہشت گردی کی جنگ میں فعالیت کے ڈنکے بجانا شروع کر دیئے اور پھر اندرون ملک اور بیرون ملک انکی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلح افواج کے ادارے آئی ایس پی آر نے انکی فعالیت کے چرچے کرکے سول اتھارٹیز کے ساتھ بدگمانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ اگرچہ آرمی چیف کے پیشہ ورانہ فرائض کے حوالے سے اٹھائے جانیوالے اقدامات سے انکے سول اتھارٹیز کے ماتحت کام کرنے کا ہی عندیہ ملتا رہا اور ہر قومی ایشو پر انکی وزیراعظم سے ملاقاتوں سے بھی یہی تاثر پختہ ہوا کہ آرمی چیف خود کو سول اتھارٹیز سے بالاتر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ آئین کی دفعہ 243 شق 3 کے تحت آرمی چیف سمیت مسلح افواج کے تمام سربراہان کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل میں لاتے ہیں اور انہیں سول اتھارٹی کی ہدایات کے تابع ہی پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں جس کیلئے آئین کے تھرڈ شیڈول میں مسلح افواج کے دیئے گئے حلف نامہ کے تحت مسلح افواج کے سربراہوں سمیت اسکے ہر رکن کو سول اتھارٹی کے تابع کیا گیا ہے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے اس لئے آرمی چیف کا سول اتھارٹیز کے تابع رہنا اور مدتِ ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو جانا معمول کی کارروائی ہے۔ اگر ملک میں آئین اور قانون کی پاسداری ہو رہی ہو تو سول اور عسکری اداروں میں اختیارات کی کشمکش کا کوئی منظر بن ہی نہیں سکتا تاہم ماضی کے تلخ تجربات نے آرمی چیف کے منصب کیلئے طاقت کا منبع ہونے کا تاثر پیدا کردیا اس لئے اس منصب پر فائز کسی بھی جرنیل کا ماورائے آئین اقدام کا سوچنا اچنبھے کی بات نہیں اور اس تناظر میں ہی سول اور عسکری قیادتوں میں کھچائو اور تنائو کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ آرمی چیف کے حوالے سے انکی فعالیت کی بنیاد پر ممکنہ ’’عزائم‘‘ کچھ زیادہ ہی انکے ساتھ منسوب ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں بالآخر انہیں خود اپنے منصب کی میعاد پوری ہونے سے دس ماہ قبل توسیع نہ لینے کا اعلان کرنا پڑا ہے جو جرنیلی آمروں کے ماضی کے تلخ تجربات کے تناظر میں یقیناً خوش آئند ہے اور اس سے انکی زیرسرپرستی جاری اپریشن ضرب عضب اور کراچی کے ٹارگٹڈ اپریشن کے مخالفین نے یقیناً سکھ کا سانس لیا ہوگا۔ عساکر پاکستان میں بلاشبہ کسی ایک شخص کو لازم و ملزوم سمجھنے سے ہی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے آرمی چیف کے گزشتہ روز کے اعلان سے یہ صحت مند روایت بھی پیدا ہوگی کہ کوئی شخص کسی ادارے کیلئے لازم و ملزوم نہیں ہے۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشت گردی کے خاتمہ اور دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں‘ چاہے وہ سیاسی جماعتوں کی چھتری کے نیچے ہی کیوں نہ موجود ہوں‘ پر سخت ہاتھ ڈالنے کی جس فعالیت کا مظاہرہ کررہے ہیں‘ پیشہ ور جرنیل کی حیثیت سے انکے جانشین آرمی چیف بھی اپنی فعالیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ اس کا جنرل راحیل شریف نے بھی عندیہ دیا ہے اس لئے مسلح افواج کی قیادت کی تبدیلی سے دہشت گردی کی جنگ میں اسکے کردار میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔
آرمی چیف نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر توسیع نہ لینے کی جو شاندار مثال قائم کی ہے اس پر اب نہ صرف چہ میگوئیوں کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے بلکہ اس روایت کو مستحکم بنانے کی فضا بھی استوار کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے اگر اعلیٰ عدلیہ کے سربراہوں کی طرح مسلح افواج میں بھی سینئر موسٹ کو سربراہ بنانے کا اصول لاگو کر دیا جائے اور اس سلسلہ میں وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا جائے تو سنیارٹی کے اصول کے تحت ہر مستحق جرنیل اپنے ادارے کی قیادت کے منصب تک پہنچتا رہے گا جس سے کسی مستحق جرنیل کی دل شکنی بھی نہیں ہوگی اور کسی کے اپنے ادارے میں لازم و ملزوم ہونے کا تاثر بھی قائم نہیں ہو سکے گا۔ اگر وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے اس صوابدیدی اختیار کی خود قربانی دے دیں تو اس سے میرٹ کے بول بالا اور جمہوریت کے استحکام کی منزل بھی حاصل ہو جائیگی۔