”دبئی فیکٹری 1980ءفروخت ہوئی“ حسین اور حسن نواز نے ایک اورقطری خط کاروباری تفصیلات جمع کرادیں

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس میں حسین نواز اور حسن نواز کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے قطری شہزادے کے ایک اور خط سمیت مزید اضافی دستاویزات جمع کرا دی ہیں۔ یہ خط پہلے والے خط میں اٹھائے گئے بعض سوالات کے جواب میں لکھا گیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان نے قطر میں سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی تھی کیونکہ اس وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا جبکہ جمع کرائی گئی دستاویزات میں شیخ حامد بن جاسم الثانی بن جابر کا پروفائل، طارق شفیع کا بیان حلفی، 1980ءمیں دوبئی فیکٹری کی فروخت اور متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ سٹیل مل کی خرید و فروخت اور اس سے متعلق دستاویزات کی نقول (جس پر 20 مارچ 2005ءکی تاریخ بھی درج ہے) عزیزیہ سٹیل مل کی ورک شیٹ سیٹلمینٹ کی دستاویز، میاں شریف اور الثانی خاندان کے مابین سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ معاہدے کی نقول، حدیبیہ پیپر ملز کے آڈیٹرز کے آڈٹ کی کاپیاں (جو التوفیق کیس سے متعلق ہیں) شامل ہیں۔ خط میں کہا گےا ہے کہ قطر ی خط مےں مےاں شریف کی جانب سے دبئی میں کی گئی 12ملین درہم کی سرمایہ کاری کا بتاےا گےا ہے، 2005 میں مےاں شریف کے 80لاکھ درہم واجب الادا تھے اس رقم کے عوض نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے شیئرز حسین نواز کو فراہم کئے گئے، دونوں کمپنیوں کے بیئرر سرٹیفکیٹس 2006 میں حسین نواز کے نام کردیئے گئے، خط صرف حکومت پاکستان اور عدالت کے کام کے لئے ہے،خط پر 10 جنوری 2017 پاکستان سفیر شہزاد احمد کے دستخط ہیں۔ اضافی دستاویزات 133صفحات پر مشتمل ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے جماعت اسلامی کی درخواست کا جواب بھی جمع کروادےا گےا ہے جس میں کہا گےا ہے کہ وزیر اعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران غلط بےانی نہیں کی، بطور وزیراعظم اور رکن اسمبلی حلف کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے، وزیراعظم لندن کے چاروں فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔ منی ٹریل میں حسین نواز کی طرف سے آف شور کمپنیوں کا انتظام سنبھالنے سے متعلق معلومات بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے، وہ شخض پورے خاندان کو چلاتا ہے،کیا ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں، بالغ بچے اپنا کارروبار ہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں، کیا وہ بھی زیر کفالت تصور ہوں گے؟، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی، مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل میں کہا کہ عمران کی دائر درخواست سےاسی مخالفت کے باعث ہے جبکہ عوامی مفاد کے تحت دائر آئینی درخواستیں نیک نیتی پر ہونی چاہیں، اگر والدین بچوں کو تحفہ دیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بچے انکے زیر کفالت ہیں، ان کی موکلہ مریم نواز شادی کے بعد اپنے والد کے ساتھ بھی رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کے زیر کفالت ہیں۔ عدالت نے شاہد حامد سے تحفوں میں دی گئی رقم کی تفصیلات پر مبنی چارٹ طلب کرتے ہوئے کیس آج بروز جمعہ تک ملتوی کر دی۔ شاہد حامد نے مریم نواز کے انٹرویو کا حوالہ دیا اور کہا کہ آج ان کے انٹرویو کا متن عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا جو بعدازاں جمع کرا دیا گیا۔ اس انٹرویو میںمریم نواز نے الزامات کا جواب دیا ہے، انہوں نے مریم نواز کے میاں محمد نواز شریف کے زیر کفالت نہ ہونے سے متعلق دلائل د یتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ خاتون زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ شاہد حامد نے موقف اختیار کیا کہ اگر غیر شادی بیٹی کے ذرائع آمدن موجود نہ ہوں تو وہ زیر کفالت تصور ہو گی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ا گر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو اور بچے بڑے ہو چکے ہوں تو کیا صورتحال ہو گی؟ مشترکہ کاروبار کی صورت میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصور کئے جائیں گے؟ شاہد حامد نے کہاکہ اس حوالے سے کوئی واضع تعریف نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ بالغ بچے اپنا کارروبارہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں، کیا وہ بھی زیر کفالت تصور ہوں گے؟ جس پرشاہد حامد نے کہا کہ جذباتی اور ثقافتی طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی ہے جبکہ ڈکشنری کے مطابق مکمل طور دوسرے پر انحصار کرنے والا زیرکفالت ہوتا ہے، اگر قانون واضح نہ ہو تواس لفظ کے بارے میں ڈکشنری میں جو معنی لکھے ہوں، انہیں پر بھروسہ کیا جائے گا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہر ڈکشنری میں کسی بھی لفظ کا مطلب مختلف ہوسکتا ہے، جبکہ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر کسی لفظ کی تشریح نہ ملے تو مقدمہ کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے، شاہد حامد نے کہا کہ ان کے موکلہ شادی کے بعد اپنے والد کے ساتھ بھی رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کے زیر کفالت ہیں، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا مریم نواز کے لیے نواز شریف نے زمین انہی تاریخوں میں خریدی تھی جن تاریخوں میں حسین نواز نے انہیں تحفہ میں رقم دی تھی؟ بظاہر لگتا ہے کہ حسین نواز نے اپنے والد کو رقم تحفے میں دی پھر والد نے یہ زمین مریم نواز کے لیے خریدی، پھر بیٹی نے قانونی طور جائیداد کی مالک بننے کے بعد ر قم والد کو واپس کردی تھی، شاہد حامد نے کہا کہ اگر جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی ہے تو یہ کلریکل کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن کلریکل کوتاہی کے کبھی بھی سنگین نتائج نہیں نکلتے ہیں، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس مقدمہ میں تاریخیں بہت اہم ہیں، ہم نے رقم کی منتقلی اور تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں، انہوں نے ہدایت کی کہ چارٹ بنا کر وزیر اعظم کو اپنے بچوں کی جانب سے تحائف میں ملنے والی رقم اور بطور تحفہ بچوں میں اس کی تقسیم کا گوشوارہ پیش کیا جائے، اس میں تفصیل دی جائے کہ مریم کے والد میاںنواز شریف نے مریم نواز کو کب اور کتنی رقم تحفہ میں دی تھی اورمریم نوازنے کب کب وہ رقم انہیں واپس کی تھی، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ وہ یہ گوشوارہ کل جمع کروا دیں گے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ زرعی زمین سے حاصل آمدن مریم کی اپنی آمدن ہے، اگر مریم نواز اِنکم ٹیکس ریٹرن فائل کر رہی ہیں تو زیر کفالت کا معاملہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے بتانا ہے کہ مریم کے پاس تحفوں کے علاوہ بھی ذرائع آمدن ہیں؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ دو ہزار تیرہ میں زرعی آمدن 69 لاکھ روپے تھی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جس طرح سندھ اسمبلی میں ہوتی ہے، مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں، زیر کفالت کے معاملے کو اِنکم اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے ، ہم آپ سے ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے ہیں کہ پیسہ کدھر خرچ ہواتھا؟شاہد حامد نے کہا کہ اگر والدین بچوں کو تحفہ دیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بچے انکے زیر کفالت ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تحائف کے تبادلہ سے کوئی زیر کفالت نہیں ہوتا ہے کیونکہ والد بھی تحائف وصول کرتا رہا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا اگرسیاسی اختلاف ہو تو درخواست نہ سنیں؟ آپ درخواست گزار کی بدنیتی بتائیں؟ آدھے گھنٹے بعد ٹی وی پر نظر آ جائے گا کہ مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہے؟ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ سیاسی مخالفت جھگڑا یا جنگ نہیں ہوتی، لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے، شاہد حامد نے اپنے دلائل کے حق میں درخواست گزار عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف سیاسی مخالفت کے بیانات پر مبنی اخباری تراشے عدالت میں پیش کئے تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ان کو چھوڑ دیں یہ باتیں اب بہت پرانی ہو چکی ہیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون مقرر کیا جائے تو شاھد حامد نے کہاکہ عدالت مقدمات میں معاون مقرر کرتی رہتی ہے، اگر اس کیس میں کسی کو معاون مقرر کر ے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ کی عدالتی معاون مقرر کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے، مقدمہ میں ہر فریق کا وکیل بہتر انداز میں دلائل دے رہا ہے،ہمارے سامنے تو شیخ رشید نے بھی مقدمہ بہترین انداز میں پیش کیا جس پرکمرہ عدالت قہقہوں نے گونج اٹھا ، جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہنسیں نہیں یہ بات جج صاحب نے سنجیدہ انداز میں کی ہے، شاھد حامد نے ظفر علی شاہ کیس کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہا تھاجس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے بھی تو اس فوجی آمریت کو خوش آمدید کہا تھا، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ باتیں بیت گئی ہیں انہیں جانے دیں، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وکلا اپنے دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں ، شاہد حامد نے کہاکہ میں مسول علیہ و وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے کل دلائل دوں گا، انہوں نے کہا کہ سات فروری کا منروا کا خط بھی جعلی دستاویز ہے،عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کل کتنا وقت لیں گے تو انہوںنے کہا کہ وہ وقفہ سے پہلے پہلے اپنے دلائل مکمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے بعد ازں کیس کی مزید سماعت آج بروز جمعہ تک ملتوی کردی گئی آ ج شاہد حامد کے دلائل مکمل ہو نے کے بعد حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ دلائل دیں گے۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ والد سے تحفہ لینے پر کوئی زیر کفالت نہیں ہو جاتا زرعی اراضی سے بھی مریم نواز کو آمدن ہوتی ہے۔ 148 کنال زرعی اراضی کی خریداری کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کے ذمے بڑا کام ہے تمام آپشن کھلے ہیں۔
پانامہ کیس

ای پیپر دی نیشن