ظلم و جبر کے راستے آسان ہو گئے

Jan 27, 2017

نذیر احمد غازی

امریکہ کے نئے صدر نے اپنی نئی کارروائیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے بین الاقوامی برادری کے سامنے نئے مستقبل کے عالمی تناظر میں مسلمانوں کی حیثیت کا تعین بالکل واضح نظر آتا ہے۔
یہ درست ترین خیال کہ امریکہ مسلمانوں کی دشمنی میں ہر اقدام کر سکتا ہے۔ امریکی صدر کے انتخاب کے وقت بہت سے مسلمان ممالک کے دانشور اجتماعی طور پر قیاس آرائیوں سے جو پیش منظر تیار کرتے ہیں وہ امیدوں کی دنیا کا سہارا کہا جا سکتا ہے۔
مسلمان ممالک کی باہمی جنگ بازی نے ہمیشہ ہی امریکہ کو اپنا منصف قرار دیا ہے۔ کسی بھی مسلمان ملک کے حکمرانوں نے باہمی تصفیے کیلئے مسلم اُمت کے کسی بھی اجتماعی کردار کیلئے اپنی سلامتی کونسل پر کماحقہ اعتبار نہیں کیا، مسلمان ممالک کے باہمی تنازعات کے باعث عالمی برادری میں مسلمانوں کی اجتماعی کمزوری اور اعتبار پر اعتبار واضح ہو کر سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں کی باہمی چپقلش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے غیرمسلموں کی مدد حاصل کر کے جنگیں برپا کرنے کے بعد نتائج نہایت ہی ہولناک اور اُمت مسلمہ کی اجتماعی بربادی کا باعث بنے ہیں۔
مسلمان حکومتوں کے زیراثر عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ہمیشہ ہی مسلمانوں کی اجتماعی عزت اور عالمی بالادستی کے تصور کو کبھی بھی فراموش نہ کر سکا۔ اسی لئے عوام الناس میں نجی سطح پر عالم اسلام کی بالادستی کیلئے فکری، سیاسی اور عملی جدوجہد کے مناظر سامنے آتے رہتے ہیں۔ انقلاب ایران، افغانستان کی مکمل خودمختاری کی تحریک اور اس کے علاوہ فلسطین و کشمیر میں جبری قوتوں سے نجات کیلئے آزادی کی مزاحمتی تحریکیں مسلسل اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں مسلمان حکمرانوں کا رویہ مطلوبہ حمایت کے تقاضے کو پورا نہیں کر پاتا۔ اسی لئے بار بار مسائل کے حل کیلئے ہم مسئلہ فلسطین کے حل کو امریکہ کی خوشنودی میں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور اپنے کشمیری بھائیوں کی تحریک آزادی میں دی جانے والی قربانیوں کا صلہ امریکی مصالحت و مداخلت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دیگر اسلامی ممالک میں بین الاقوامی طاغوتی قوتوں نے وہاں کے عوام کو بہت ہی شاطرانہ انداز سے تقسیم کرنے کے بعد وہاں پر خانہ جنگی کے حالات پیدا کئے اور وہ اپنی اس سازش میں پوری طرح سے کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے وہاں پر عوام کو مذہب، مسلک اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا اور مختلف مذہبی و سیاسی قیادتوں کو اپنے بنائے ہوئے سازشی جال کا حصہ بنا کر ایسا ناقابل حل فساد برپا کر دیا جس سے دہشت گردی اور مایوسی نے جنم لیا۔
اب مسلمان ممالک میں حکومتوں کی بین الاقوامی بے بسی بھی انہی عالمی قوتوں کا سہارا لیتی ہے، جن عالمی قوتوں نے ہمارے ملکوں میں اندرونی فسادات کا راستہ کھولا ہے۔
ایسے ناقابل اعتماد حالات میں معاشی کمزوری کا پیدا ہونا ایک فطرتی امر ہے۔ مسلمان ممالک سے بہت سے افراد تعلیم اور معاشیات کی بہتری کیلئے یورپین ممالک کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بہت سے افراد اپنے ممالک ہی میں سیاسی اور معاشرتی بے سکونی کے باعث یورپین ممالک میں مستقل رہائش کے ارادے سے سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہاں پر مستقل رہائش اختیار بھی کر لیتے ہیں۔
مسلمان ممالک سے منتقل ہونے والے افراد اپنی روایتی اور مذہبی ثقافت سمیت ہی اپنی زندگانی کا سفر جاری رکھنے کا انداز فراموش نہیں کر پاتے ہیں۔ اس سب سے ان پر بہت سی پابندیوں کا قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ایک اہم ترین وجہ یورپ کے اجتماعی مذہب عیسائیت اور بہت سے مقامات پر یہودیت کے اثرات کے علاوہ یورپ کی جدید ترین مادر پدر آزاد تہذیب بھی مسلمانوں کو ان کے اجتماعی معاشرے سے علیحدہ رکھتی ہے۔
مسلمانوں کی یورپی معاشرے میں علیحدہ شناخت اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے ایک تاریخی بغض بھی مسلمانوں، اقلیتوں کو ہمیشہ ہی گھٹیا شہریوں میں شمار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ ایک مسلسل معاشرتی سرد جنگ ہے جو کبھی کبھی نفرت کے شعلوں میں بدلتی ہے اور مسلمانوں پر جبر و تشدد کے پہاڑ توڑنے کیلئے عالمی شاطروں اور جابروں کو غیرقانونی اور غیراخلاقی جواز فراہم کرتی ہے۔
امریکی صدر کا یہ نیا حکمنامہ کہ سات اسلامی ملکوں کے شہریوں کا داخلہ امریکہ میں بند کر دیا جائے۔ اسی طرز کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ مسلمان ملک عربی ہیں یا افریقی اور پھر ایران کو بھی اس زد میں رکھا گیا ہے۔ ایران ہو یا عراق، یمن ہو یا شام، یا سعودی عرب، اہل یورپ کے نزدیک یہ سب مسلمان ہیں اور یورپ کے حکمرانوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے وہی جذبات مؤجزن ہیں جو ان کے مذہبی اور معاشرتی رہنمائوں نے ان کے دلوں کا مستقل حصہ بنا دیئے ہیں۔
امریکہ کی بے جواز پابندیوں نے پہلے بھی مسلمان ممالک کی معاشیات اور اخلاقی اقدار کو بربادی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی اسی طرح کی پابندیاں مسلم کش مہم کا ایک تازہ جابرانہ اقدام ہے۔
اُمت مسلمہ کے حکمرانوں اور عوام الناس کو اب بہت زیادہ بیداری درکار ہے۔

مزیدخبریں