ڈاکٹر عشرت العباد 14 سال گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد 9 نومبر 2016ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ انکے بعد جسٹس سعید الزمان صدیقی کو گورنر سندھ مقرر کیا گیا لیکن خرابی صحت کی بناء پر وہ 11 جنوری 2017ء کو انتقال فرما گئے اور ان کی وفات کے بعد یہ عہدہ پھر خالی ہو گیا۔ اس وقت اس عہدے کیلئے وفاقی حکومت کئی ناموں پر غور کر رہی ہے تاکہ سندھ میں وفاق کا نمائندہ مقرر کیا جا سکے۔ گورنر سندھ کی حیثیت سے وفاق کی نمائندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس میں فوجی افسران‘ عدلیہ کے نمائندے اور سیاستدان سرفہرست ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کی اصل اور صحیح صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباری زندگی سے صرف اشرف تابانی ہی 5 جنوری 1987ء سے 23 جون 1988ء تک گورنر سندھ رہنے کا اعزاز حاصل کر سکے ہیں۔ فوجی افسران میں جنرل رحمان گل‘ جنرل ایس ایم عباسی‘ جنرل جہانداد خان‘ جنرل رحیم الدین خان‘ جنرل معین الدین حیدر‘ ائرمارشل اعظم داؤد پوتا گورنر سندھ رہ چکے ہیں‘ عدلیہ سے جسٹس قدیر الدین احمد‘ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم‘ جسٹس سعید الزمان صدیقی‘ جسٹس عبدالقادر شیخ۔ میڈیا سے عبداللہ ہارون اور سیاستدانوں میں یہ اعزاز ممتاز بھٹو‘ میر رسول بخش تالپور‘ بیگم رعنا لیاقت علی خان‘ کمال اظفر‘ صدر مملکت ممنون حسین‘ محمد میاں سومرو‘ ڈاکٹر عشرت العباد‘ غلام حسین‘ ہدایت اللہ‘ شیخ دین محمد۔ بیورو کریسی سے میاں امین الدین اور نواب افتخار حسین ان کے علاوہ نواب آف جونا گڑھ محمد دلاور خان جی اور حکیم سعید کو بھی گورنر سندھ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ گورنر سندھ مقرر ہونیوالے وفاق کے نمائندوں پر نظر ڈالنے سے یہ صورت حال واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تاجر اور صنعت کار کو آج تک اس کا جائز مقام نہیں مل سکا ہے۔ معاشرے میں ان کی عزت اور توقیر کو بڑھانے کے لئے کبھی بھی مناسب اقدامات نہیں کئے گئے۔ اسلامی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو حضور پاک حضرت محمد مصطفیؐ اور اُمّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے علاوہ چاروں خلفائے راشدین تاجر تھے۔ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس میں تاجر اور صنعت کار کی عزت اور توقیر کا اندازہ گورنر سندھ کی فہرست سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں انہی معاشروں نے ترقی کی ہے جنہوں نے پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباری طبقے کو حکومت سازی اور قانون سازی کے امور میں مشاورت میں لیا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ’’کماؤ پتر‘‘ (تاجر اور صنعت کار) جسے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ملک کی معیشت میں تمام تر ٹیکس کاروباری طبقے سے ہی وصول کئے جاتے ہیں اور جس سے ملک چلتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی کاروباری شخصیت کو رول ماڈل کے طور پر سامنے لانے کی وفاق کی طرف سے کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ جب تک ہم اپنے معاشرے میں بزنس رول ماڈل بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز نہیں کریں گے اور کاروباری طبقے کی شخصیت کو گورنر سندھ مقرر کر کے اس طرف عملی قدم نہیں اٹھائیں گے پاکستان امن‘ ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکے گا۔ کراچی میں کاروباری طبقے کی سب سے قابل احترام شخصیت ایس ایم منیر موجود ہیں اس وقت وہ TDAP کے CEO کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دو سالوں میں اس عہدے کی کوئی تنخواہ اور مراعات حاصل نہیں کیں جبکہ اپنے کاروبار سے وقت نکال کر اس ادارے کی بہتری کیلئے کام کیا ہے۔ ایس ایم منیر FPCCI کے صدر رہ چکے ہیں اور اس وقت یونائیٹڈ بزنس گروپ جو کہ گزشتہ تین سالوں سے FPCCI کا انتخاب جیت رہا ہے اسکے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے لیکن وزیر اعظم محمد نواز شریف سے خصوصی تعلق اور محبت رکھتے ہیں۔ کراچی کیساتھ ساتھ ملک بھر کی کاروباری برادری میں انتہائی مقبول ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد میں مہاجروں کیساتھ ساتھ سندھی اور دیگر قومیت کے افراد میں بھی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ گورنر سندھ کی تقرری میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مہاجر کو فوقیت دی جا رہی ہے جو کہ مناسب بات نہیں ہے۔ ہمیں اس طرح کی سوچ سے ہٹکر وفاق کے نمائندے کا تقرر وفاقی سوچ کے ساتھ کرنا چاہئے۔ ایس ایم منیر نے اپنی زندگی کراچی کے عوام اور تاجر برادری کی خدمت میں وقف کر رکھی ہے یقینا ان کی گورنر سندھ کی حیثیت سے تقرری سے ملکی نظام میں ایک خوشگوار آغاز ہو گا اور جہاں کراچی اور سندھ کے معاملات کا تعلق ہے پرائیویٹ سیکٹر کی سوچ اور فکر کیساتھ کراچی میں امن کی منزل قریب آسکے گی وہاں ترقی خوشحالی اور سرمایہ کاری کو بھی فروغ حاصل ہو گا اور ملک بھر کا کاروباری طبقہ ایک اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری میں بھی دلچسپی لے سکے گا