بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اسے پاکستان میں ایسے پارٹنر مل گئے جن کے ذریعے اس نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو خوب پھیلایا۔ ایم کیو ایم کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوگئی ہے ۔
بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کے حوالہ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بلوچستان آپریشن سے پہلے وہ سندھ اور کراچی میں کام کرتا رہا ہے۔ خود اس کا اعترافی بیان ہے کہ وہ کراچی بھی آتا جاتا رہا ہے اور وہاں مقامی رسہ گیروں اور دہشت گردوں سے اس کے تعلقات تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ جو اس وقت بانی الطاف حسین کے زیر سایہ تھی، کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو بھی اس کا آناجانا تھا۔ متحدہ کے ٹارگٹ کلرز بھی وارداتیں کرنے کے بعد اس کے پاس چاہ بہار میں جا کر چھپا کرتے تھے۔کلبھوشن نے انکشاف کیا کہ 2005 میں متحدہ کو بھاری مقدار میں غیر ملکی کرنسی دی اور متحدہ کے ذریعہ سے بلوچ قوم پرستوں سے رابطے کی کوشش کرتا رہا۔
متحدہ کے منحرف لیڈر نے لندن بیٹھ کر ماضی کے راز بے نقاب کر دیئے۔ متحدہ کے ایک سابق لیڈر جو ان دنوں تمام گروپوں سے منحرف ہو چکا ہے ، نے بتایا کہ کلبھوشن 2013 میں بھارتی را کے بلوچستان آپریشن کا نگران بننے سے پہلے 2005 اور 2006 میں کراچی میں دہشت گردی سے منسلک رہا ہے اور یہاں نائن زیرو بھی آتا رہا ہے جہاں مقامی لیڈراس کی میزبانی کیا کرتے تھے۔ را کے ایک افسر انیل کمار نے کلبھوشن کو کراچی جانے کا حکم دیا تھا جہاں اس کی منزل نائن زیرو تھی۔ نائن زیرو پرمتحدہ کی ساری قیادت نے اسے خصوصی پروٹوکول دیا۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے دو سینئر رہنمائوں نے برطانوی حکام کو بتایا ہے کہ جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کی۔ برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔ 2006_2005ء سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔
پولیس کی طرف سے پیش کیے جانیو الے ملزم طاہر عرف لمبا نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ اس کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور اسے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے تربیت دی۔ اس کا کہنا تھا کہ وقاص نامی شخص نے پاسپورٹ اور بھارتی ویزے کا انتظام کیا اور ہم دس لڑکوں کے گروپ کو بھارت پہنچایا گیا جہاں دلی ائیر پورٹ ہمارا استقبال ایم کیو ایم کے رہنما طارق زیدی عرف سنی نے کیا اور جو ہمیں اپنے فارم ہاؤس پر لے گیا۔ اس کے بعد سنی نے ہمیں ’’را‘‘ کے ایک کیمپ میں پہنچایا جہاں ایک ماہ تک ہمیں تربیت دی گئی اور پھر لاہور کے راستے واپس پاکستان پہنچایا گیا۔ طاہر عرف لمبا کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھی گرفتاری کے خوف سے بنکاک فرار ہوگئے ۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ 3 سے 4 افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہے اور اس پر وہ بہت شرمندہ ہے۔ طاہر لمبا کا کہنا تھا کہ انہیں سیکٹر آفس سے ہدایات ملتی تھیں جس کے بعد وہ جرائم کی کاروائیاں کرتے تھے۔
ایسے ہی لوگوں کے منظر عام پر آنے کے بعد ایم کیو ایم نے یہ بہانے تراشے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آپریشن کے دوران بھارت بھاگ گئے تھے تو وہاں شاید را کے ہاتھ لگے ہوں گے۔ مگر اب تو کلبھوشن یادیو خود کہہ رہا ہے کہ وہ کراچی اور بلوچستان کر پاکستان سے علیحدہ کرنے کی مشن پر لگا ہوا تھا۔اس نے مقامی لوگوں سے رابطوں کا بتایا جن کو ہماری خفیہ ایجنسیاں گرفتار کر رہی ہیں۔ فاشسٹ دہشت گرد ایم کیو ایم را کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے کراچی کو پچھلے تیس سال سے یرغمال بنائے ہوئی تھی اس دوران ایک سو سے زائد خونی ہڑتالیں کرائی گئیں۔ ایک ٹیلفون کال پر پورا شہر بند کروا دیا جاتا تھا۔ بوری بند لاشوں، ٹارگٹ کلر، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور کراچی میں مزدوری کرنے والے پاکستان کی دوسری قوموں کی لاشیں کبھی پنجاب،بلوچستان،کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختوخواہ بھیجی جاتی تھیں۔
برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف 2010 میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھی جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انہی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کر دی گئی تھیں۔ یہ بات بھی سب پر واضح ہے کہ برطانیہ میں ایم کیوایم کے رہنماؤں نے لندن پولیس کے سامنے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘سے تعلق کا اعتراف کیا۔یہ کیسی سیاست ہے جو پاکستان کی جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔ مہاجروں کو سمجھایا جائے کہ وہ کس بت کی پوجا کررہے تھے۔ مہاجروں کو بتایا جائے کہ تمہارے بزرگوں نے اس ملک کیلئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی۔ ہمیں سیاسی فرقہ واریت سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ متحدہ کے کارنامے 92ء میں ہی سامنے آگئے تھے۔ ایم کیو ایم کے بارے بی بی سی نے جو کہا ہے وہ نیا نہیں، انکے خلاف 1992ء میں آپریشن ہوا، تب بھی پتہ چل چکا تھا کہ انہیں بھارت میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بھارت سے ایم کیو ایم کو امداد ملتی ہے۔ جن کیمپوں میں انہیں تربیت دی جاتی تھی، انکے نام تک دیئے گئے۔کچھ پکڑے گئے، کچھ جنوبی افریقہ، بنکاک، دبئی فرار ہوگئے۔بھارت کی پاکستان سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن یہ امر قابل مذمت ہے کہ ایک سیاسی جماعت اسکی آلہ کار بن کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ پہلے حکومت اس رپورٹ کی تحقیقات کرائے۔