گورنر ہاﺅس میں تقریبات اور مونچھوں کو تاﺅ

گورنر ہاﺅس اب تقریبات کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پہلے بھی یہاں تقریبات ہوتی تھیں مگر گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ کے ہوتے ہوئے یہاں تسلسل کے ساتھ تقریبات ہوتی ہیں۔ کتابوں کی تقریب رونمائی بھی ہوتی ہے۔ یہاں ماحول بہت اچھا ہوتا ہے۔ 

گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ اپنے نام کے سارے معانی جانتے ہیں۔ وہ ہر طرح کی رفاقتوں کے امین ہیں۔ وہ کسی بھی تقریب میں آخر تک بیٹھتے ہیں اور مہمانوں کو خود رخصت کرتے ہیں۔ گورنر ہاﺅس میں آج کل مشہود شورش گورنر ہاﺅس کے متعلق پریس کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ وہ عظیم خطیب ادیب بہادر اور بے باک شورش کاشمیری کے بیٹے ہیں۔ خود بھی ادیب ہیں اور قلمکاروں سے دوستانہ مراسم رکھتے ہیں۔ نجانے کیوں میری خواہش تھی کہ وہ شورش کے بعد بھی ان کے رسالے ”چٹان“ کو جاری رکھتے۔ اب تو ملک میں کوئی چٹان نہیں ہے۔
گورنر ہاﺅس میں معروف ادیب اور مستحکم شخصیت کے طہٰ قریشی کی کتاب کی تقریب تھی جس کی صدارت محمد رفیق رجوانہ نے کی۔ اچانک بہت کشادہ دل والے انتہائی خوبصورت اور برجستہ جملہ کہنے کا ذوق و شوق حاصل ہے۔ ایک خوشگوار کیفیت کی پھوار حافظ صاحب کے آس پاس رہتی ہے۔ ان کے ساتھ بڑے دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے جیسے تھے مگر پچھلے دنوں کچھ بیمار رہے۔ وہ محفل کے مہمان خصوصی تھے۔
طہٰ قریشی کی کتاب کا موضوع بہت مختلف ہے۔ ”امن عالم اور اقوام عالم“ اس کے نیچے جو لکھا ہوا ہے وہ اہم ہے اور مصنف کے لیے اسی حوالے سے بات کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ”عالم اسلام کی سسکتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں“۔ ایسی کتاب کوئی درد دل رکھنے والا آدمی ہی لکھ سکتا ہے۔ تمام بات کرنے والوں نے طہٰ قریشی کی اس کامیاب کاوش کو سراہا۔
سعداللہ شاہ نے بہت خوبصورت مضمون پڑھا جبکہ آج کل تقریبات میں مضمون پڑھنے کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ مدت پہلے تمام مقررین مضمون ہی پڑھتے تھے۔ تحریر اور تقریر میں ایک واضح فرق ہے۔ لکھی ہوئی چیز بہرحال زیادہ مربوط اور مضبوط ہوتی ہے۔ بڑے بڑے مقررین بھی گزرے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
سعداللہ شاہ کے علاوہ بہت دوستوں نے زبانی بات کی۔ میں نے منہ زبانی بات کی۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف، اوریا مقبول جان، حافظ حسین احمد نے بھرپور بات کی۔ طہٰ قریشی کی گفتگو ایک بڑی آرزو سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بات کی۔ امید ہے وہ آئندہ بھی ایسی اہم کتابیں لکھتے رہیں گے۔ وہ برطانیہ رہتے ہیں مگر کتاب کی تقریب کے لیے لاہور تشریف لائے۔ ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لاہور کی گواہی کسی بھی بڑی ادبی، تخلیقی، سماجی کارنامے کے لیے بہت ضروری ہے۔
داتا گنج بخش نے فرمایا کہ جو بات لاہور میں ہوتی ہے وہ پوری دنیا میں مشہور ہو جاتی ہے۔ میں معروف شاعرہ انمول گوہر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ تقریب میں شرکت کے لیے ایک بڑا وسیلہ بنی۔ میں ادیبی صاحب تقریبات میں شرکت کرتا رہتا ہوں مگر یہ تقریب منفرد اور ممتاز تھی۔ انہیں رجوانہ صاحب نے بھی گورنر ہاﺅس کے لیے یہاں تقریبات کرانے کو سراہا اور مجھ سے گواہی چاہی۔ میں نے بہت بھرپور تائید کی۔ میں نے گورنر ہاﺅس میں ایسی ہر تقریب میں شرکت کی ہے۔ مجھے بڑا مزا آیا۔ ہر تقریب میں رجوانہ صاحب اور مشہود شورش شرکت کرتے ہیں۔ بلکہ وہ میزبان ہوتے ہیں۔ صدر پاکستان کی طرح گورنر پنجاب کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتے مگر یہ مناصب بہت اہم ہیں۔
جنرل خالد مقبول نے باختیار گورنر کے طور پر مزے لوٹے اور بے اختیار بھی ہو گئے۔ پھر انہوں نے پنجاب میں مختلف اداروں کے دورے کرنا شروع کر دیے۔ میانوالی کے لیے جب وہ گئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ مجھے تو جنرل خالد مقبول کا یہ اقدام اچھا لگا اور لوگ بھی خوش ہوئے کہ گورنر ان کے پاس آیا ہے۔
میرے خیال میں دو گورنر بہت قابل ذکر ہیں۔ عبدالرب نشتر اور ملک امیر محمد خان۔ ملک صاحب کا تعلق میانوالی سے تھا۔ وہ بہت بڑے منتظم اور طاقتور آدمی تھے۔ اگر صدر ایوب ملک صاحب کو نہ ہٹاتے تو ان کا بھی یہ حشر نہ ہوتا جو ہوا۔ ملک صاحب کو ان کے بیٹوں نے قتل کر دیا۔ جب وہ شیو کر رہے تھے۔ ورنہ ان کی دہشت اتنی تھی کہ کوئی ان کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے بعد ان کے بیٹوں کا کیا حال ہوا۔ وہ کہاں ہیں۔ وہ کسی قطار شمار میں نہیں ہیں۔ ملک صاحب کے لیے کہتے ہیں کہ وہ ظالم تھے۔ ظالموں کے ساتھ ان سے بڑا ظالم بننا پڑتا ہے۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ 65ءکی جنگ میں جب قیمتیں بڑھنے لگیں تو انہوں نے متعلقہ لوگوں کو بلایا او کہا کہ کوئی قیمت نہیں بڑھے گی اور صرف اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیا اور پھر ایک پیسہ بھی قیمت نہ بڑھی۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن