صفدر علی چودھری …خاموش ہو گیا چمن اک بولتا ہوا

بچپن ہی میں والدین اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی سعادت حاصل کی اور اوکاڑہ میں آباد ہوئے یہیں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ مفکر اسلام، مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر ہوئے اور اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بنے۔ اوائل عمر کی یہ راست فکر انکے جسم و روح میں ایسی رچ بس گئی کہ آخری سانس تک امید بہار کے ساتھ اس شجر سے پیوستہ رہے اور کبھی مایوسی اور ناامیدی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے سیاسیات کیلئے جامعہ پنجاب میں داخلہ لیا۔ یہاں انکے اندر موجود قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر اور ابھر کر سامنے آئیں چنانچہ پہلے اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم بنائے گئے پھر جب متحدہ پاکستان میں سید منور حسین جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو صفدر علی چودھری صوبہ مغربی پاکستان (موجودہ پورے پاکستان) کے ناظم بنائے گئے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں نہایت محنت اور تندہی سے ادا کیں، مگر جمعیت کی مصروفیات کو تعلیم میں آڑے نہیں آنے دیا چنانچہ 1967ء میں سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی۔ بانی امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ہدایت کے مطابق اپنی خدمات جماعت اسلامی کے مرکز کو پیش کر دیں جہاں انہیں ممتاز شاعر و ادیب مولانا نعیم صدیقی ناظم نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ نائب ناظم مقرر کیا گیا اور جلد ہی اس ذمہ داری سے مولانا نعیم صدیقی کی سبکدوشی کے بعد صفدر چودھری صاحب ناظم نشر و اشاعت بنا دیئے گئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد وہ میاں طفیل محمد مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کے ادوار امارت میں بھی جماعت کے مرکزی شعبہ نشر و اشاعت کے ناظم رہے اپنے دور میں انہوں نے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر شعبہ کو وسعت بھی دی اور اسے جدت آشنا بھی کیا… پھر قاضی حسین احمد صاحب نے انہیں شعبہ تعلقات عامہ کی ذمہ داریاں سونپیں تو یہاں بھی انہوں نے شب و روز محنت کر کے اس نئے شعبہ کو متحرک و فعال رکھا۔ ’’وہ فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور کام کرنے کیلئے بالائی نظم کی ہدایات کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ خود نت نئے منصوبے روبہ عمل لاتے رہتے تھے۔ ہم خیال صحافیوں کو منظم کرنے کیلئے انہوں نے دو سطحوں پر کام کیا اور ایک جانب اگر ’’حلقہ صحافت‘‘ منظم کیا تو دوسری جانب قدرے وسیع تر مقاصد کی خاطر ’’لاہور میڈیا فورم‘‘ کو بھی وجود میں لائے اسی طرح افغانستان اور کشمیر کے شہداء کے والدین سے رابطہ استوار رکھنے کیلئے ’’مجلس والدین شہدائ‘‘ بھی قائم کی، اب سب تنظیموں کے ذمہ داران تو متعلقہ شعبہ سے وابستہ لوگ ہی ہوتے تھے مگر پس پردہ مدار مہام صفدر علی چودھری صاحب کی ذات ہوتی تھی… وہ صلے اور ستائش کی پرواہ کئے بغیر خاموشی سے خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے وسائل کی کمی کو کبھی جواز نہیں بنایا۔ راقم الحروف ذاتی طور پر آگاہ ہے کہ وہ قرض لیکر بھی احباب صحافت اور دوستوں کی ضروریات بلکہ خواہشات کی تکمیل کا اہتمام کرتے۔ انہیں کسی دوست کی تکلیف یا پریشانی کے بارے میں علم ہوتا تو مدد کی درخواست کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ خود آگے بڑھ کر اُسکے کام آنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کے مدیر چودھری غلام جیلانی کے انتقال کے بعد صفدر علی چودھری صاحب کو یہ ذمہ داریاں تفویض کی گئیں تو انہوں نے عملی صحافت میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اس دور میں انہوں نے ’’ایشیا‘‘ کی مجلس ادارت میں راقم الحروف کو بھی شامل کیا تو یہ تجربہ ہوا کہ یہ مجلس محض خانہ پری کی خاطر نہیں تھی بلکہ صفدر صاحب گوالمنڈی لاہور کی فوٹو مارکیٹ میں واقع ایشیا کے مختصر سے دفتر میں اس مجلس ادارت کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرتے اور اشاعت کی بہتری کیلئے مشاورت کرتے۔ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں دارالضیافہ اور دارالاخوۃ کے جماعت اسلامی کے مہمان خانوں کے علاوہ صفدر چودھری صاحب کا گھر تیسرا مہمان خانہ تھا۔ صفدر صاحب چونکہ صرف لاہور میں نہیں پورے ملک میں ایک ہر دل عزیز شخصیت کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ اس لئے لاہور کے علاوہ ملک بھر سے آنیوالے مہمانوں کیلئے ان کا گھر قیام و طعام کیلئے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا… اس ضمن میں انکے بچوں کے علاوہ ان کی اہلیہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جو ماتھے پر شکن لائے بغیر صفدر صاحب کے ہر طرح کے مہمانوں کے خاطر مدارات کا اہتمام خوش دلی سے کرتی رہیں…!!!

جہاد آزادی کشمیر میں صفدر صاحب کا بیٹا مظفر نعیم شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا تو صفدر چودھری اور ان کے اہل خانہ نے اس صدمے کو نہایت صبرو تحمل سے برداشت کیا۔
صفدرعلی چودھری باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان جیسا ہمہ وقت متحرک، مصروف اور بھاگ دوڑ کرنے والا شخص شوگر جیسے جان لیوا مرض میں کیسے مبتلا ہو گیا… تاہم حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے حتی المقدور کبھی بیماری کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اپنی جماعتی ذمہ داریاں بیماری کے باوجود تندہی سے ادا کرتے رہے حتی کہ صحت اتنی خراب ہوگی کہ انہیں فرائض سے سبکدوش ہونا پڑا… گزشتہ چند برس سے شدید علالت کے باعث محافظ ٹاؤن میں اپنے گھر بلکہ بستر تک محدود ہو گئے تھے کہ ذیا بیطس کے مرض کے باعٖث ان کو ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا تھا۔ وفات سے مہینہ بیس دن قبل ان کی عیادت کیلئے گھر جانا ہوا تو مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے مگر سچ یہی ہے کہ انکے لہجے میں وہ بشاشت معدوم تھی جو انکی شخصیت کا خاصا تھا… تیرہ جنوری کو اچانک اطلاع ملی کہ وہ منصورہ ہسپتال میں علاج کے دوران اس جہان فانی کو چھوڑ کر جہان ابدی کی طرف کوچ کر گئے ہیں۔…؎
خاموش ہوگیا‘ چمن اک بولتا ہوا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...